زینہ زینہ
جنوری کا سرد دن تھا
یاد ہے
ہم گرم چائے کی طلب میں
ریستراں کی سیڑھیاں جب چڑھ رہے تھے
تب تمہارے ادھ کھلے جوتے کے تسمے باندھنے کے واسطے
تم رک گئیں تھیں
رکی اور جھک کے تسمے باندھ کر
پھر سیڑھیاں چڑھنے کو تھیں
تب ایک لمحے کے لیے تم نے توازن کھو دیا تھا
اور سنبھلنے کے لیے کاندھے پہ میرے ہاتھ رکھا تھا
تمہیں احساس بھی شاید نہ ہو اب تک
کہ تم کو تھامنے کی فکر میں
میرے قدم بھی لڑکھڑائے تھے
میرے کاندھے پہ رکھ کر ہاتھ تم خود تو سنبھل کر
زینہ زینہ چڑھ گئیں
لیکن
میں اب تک بھی سنبھل پایا نہیں ہوں
پلٹ کر دیکھ لو اوپر کے زینے سے
میں اب بھی رائیگاں کوشش میں ہوں
شاید سنبھل جاؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.