ماں بیٹے کے درمیان ایک منظوم مکالمہ
بیٹا
بس بہت پڑھ لیا کچھ بھول نہیں جاؤں گا
ماں میں بس آج سے اسکول نہیں جاوں گا
ماں
میرے بیٹے مرے معصوم سے پیارے بچے
روز اک تازہ بہانہ نہیں کرتے ایسے
اچھا مجھ کو یہ بتاؤ ہے پریشانی کیا
تم کو اچھی نہیں لگتی کوئی استانی کیا
کون سی بات سے جھنجھلائے ہوئے رہتے ہو
یوں جو اسکول سے اکتائے ہوئے رہتے ہو
بیٹا
یوں تو بچوں سے ہے اسکول کا ہر کلاس بھرا
لیکن ان میں نہ کوئی دوست مرا یار مرا
ایک بھی میری توجہ نہیں حاصل کرتا
اپنی باتوں میں کوئی بھی نہیں شامل کرتا
میں نے دیکھا ہے چلے جاتے ہیں سب دیکھتے ہی
میری موجودگی جیسے کہ مصیبت ہے کوئی
سارے ٹیچرس بھی رہتے ہیں بہ ہر حال خفا
میں کسی وقت انہیں خوش ہی نہیں کر پاتا
اک نہ اک بات پہ کرتے ہیں وہ ہر روز جرح
وہاں کوئی بھی نہیں تیری طرح میری طرح
ماں
میرے بیٹے تمہیں اسکول تو جانا ہوگا
جو خفا ہیں انہیں ہر روز منانا ہوگا
بیٹا
ماں بھلا کیوں میں یہ روزانہ کی تکرار سہوں
کیوں بھلا روٹھے ہوئے لوگوں کے ہم راہ رہوں
ماں
سب کو خوش رکھنا کسی کے لیے آسان نہیں
میں سمجھتی ہوں کہ اس کا کوئی امکان نہیں
لیکن اسکول تو پابندی سے جاؤ بیٹے
ذمہ داری جو ملی اس کو نبھاؤ بیٹے
کیوں کہ تعلیم تمہارے لیے ہے کچھ اور ہے اب
میرے ہر روز جگانے کا ہے کچھ اور سبب
اک طرف اپنا یہ الجھا دل ناشاد رکھو
تم پرنسپل ہو یہ اک بات سدا یاد رکھو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.