زندہ رہنے کا اسم اعظم
پھر صدا تنگ و تاریک غاروں سے ابھری
تا بہ حد نظر
نیلگوں آسمانوں سے الجھی
پھر صداؤں کے بے نور سے شامیانے
مقید فضاؤں کا حصہ بنے
اور بگولوں میں الجھا ہوا
اک مسافر گرا
زردیوں نے صداؤں کا پیچھا کیا
پھر صداؤں کے اندھے کنویں سے
زبانوں کے پر شور رہٹوں کی اک اک کڑی سامنے آ گئی
تب کسی نے کہا
میں صدا کے سفر میں
منافع کا منشور لے کر
تجارت کی منڈی میں اترا
کسی کی صدا تھی
مجھے نیک و بد سے تعلق نہیں
اب مری جیب میں تو
چمکتے دمکتے خداؤں کا ڈیرا
کسی نے کہا
ہے بھیانک سفر موت سا
سنسناتی ہوئی خامشی زاد راہ
غم زدہ ادھر مرے ہم سفر
میں خدا کی بھلائی کو نکلا ہوں
لیکن
مرے ہاتھ میں زندگی کی سمٹتی لکیریں
سیاہی میں لپٹا ہوا
خون آشام خواہش کا سنگ گراں
راستے وحشتیں
زرد ویران چہرے
پھرتی ہوئی سرد آنکھیں
جو پل پل ابھرتی
تمناؤں کا جسم نوچیں
تو
اک شور بے ربط ابھرے
صدا بے نوا آج کا ایلیا
اے خدا اے خدا
مجھ کو آرام دے
زندگی کی سلگتی صداؤں سے مجھ کو بچا
- کتاب : siip (Magzin) (Pg. 177)
- Author : Nasiim Durraani
- مطبع : Fikr-e-Nau ( 39 (Quarterly) )
- اشاعت : 39 (Quarterly)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.