زندگی چہرہ مانگتی ہے
آج زندگی کی تاریخ تھی
اور وہ اس کے سامنے چیخ رہی تھی
جس نے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی
''اب میں بے چہرہ کیسے جیوں؟
میں نے تو اپنا چہرہ کاٹ کاٹ کر
بے چہرہ نسلوں میں بانٹ دیا
میری کور چشمی گواہ ہے
کہ میں نے اپنے سبھی منظر
بے منظر آنکھوں کو دے دئے
میری تمام خواہشیں نئی نسل نے بیچ کر
اپنی آرزوئیں خرید لیں
ہنسنے کے لئے میرے پاس اب ہونٹ نہیں ہیں
نسلوں کو دھوپ سے بچاتے بچاتے
جب سر میں چاندی اگ آتی ہے
تو نسلوں کے خون میں سفیدی کیوں دوڑنے لگتی ہے؟
ہر طرف میرے ہی دئے ہوئے چہرے گھوم رہے ہیں
اور میں اپنا چہرہ ڈھونڈ رہی ہوں
آخر بے چہرہ ہو کر کیسے جیا جا سکتا ہے؟''
مگر اس کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی
وہ کیسے بے چہرہ زندگی کو دیکھتا؟
اس کے ہاتھ سے جڑا ترازو کانپنے لگا
اس کے پاس نئے چہرے نہیں تھے
اور اس نے زندگی کو ایک لمبی پیشی دے دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.