زندگی کے دروازے پر
پا برہنہ و سراسیمہ سا اک جم غفیر
اپنے ہاتھوں میں لیے مشعل بے شعلہ و دود
مضطرب ہو کے گھروندوں سے نکل آیا ہے
جیسے اب توڑ ہی ڈالے گا یہ برسوں کا جمود
ان پپوٹوں میں یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں
جن میں فردا کا کوئی خواب اجاگر ہی نہیں
کیسے ڈھونڈیں گی در زیست کہاں ڈھونڈیں گی
ان کو وہ تشنگیٔ شوق میسر ہی نہیں
جیسے صدیوں کے چٹانوں پہ تراشے ہوئے بت
ایک دیوانے مصور کی طبیعت کا ابال
ناچتے ناچتے غاروں سے نکل آئے ہوں
اور واپس انہیں غاروں میں ہو جانے کا خیال
زندگی اپنے دریچوں میں ہے مشتاق ابھی
اور یہ رقص طلسمانہ کے رنگیں سائے
اس کی نظروں کو دیے جاتے ہیں پیہم دھوکے
جیسے بس آنکھ جھپکنے میں وہ اڑ کر آئے
شہ پر موت کسی غول بیاباں کی طرح
قہقہے بھرتا ہے خاموش فضاؤں میں صدا
کانپتے کانپتے اک بار سمٹ جاتی ہے
ایک تاریک سا پردہ یوں ہی آویزاں رہا
کوئی دروازے پہ دستک ہے نہ قدموں کا نشاں
چند پر ہول سے اسرار تہ سایۂ در
خود ہی سرگوشیاں کرتے ہیں کوئی جیسے کہے
پھر پلٹ آئے یہ کم بخت وہی شام و سحر
ناچتا رہتا ہے دروازے کے باہر یہ ہجوم
اپنے ہاتھوں میں لیے مشعل بے شعلہ و دود
زندگی اپنے دریچوں میں ہے مشتاق ابھی
کیا خبر توڑ ہی دے بڑھ کے کوئی قفل جمود
- کتاب : Kulliyat-e-Akhtaruliman (Pg. 85)
- Author : Baidar Bakht
- مطبع : Educational Publishing House (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.