یہ سانسوں کے چلنے کو کیوں زندگی کی علامت کہا ہے
یہ سانسیں تو مفلس کی بھی چل رہی ہیں
غریبی کے شعلے نگلنا
اور اس سانس کی خستہ رسی پہ چلنا
اگر میری کوئی کرامت نہیں ہے
تو میں سالہا سال سے ایک کرتب کیے جا رہا ہوں
یہ سب ایک سرکس ہے اور کچھ نہیں ہے
کہ جس میں فقط میں غریبی کے شعلے نگلتا ہوا سانس کی خستہ رسی پہ چلتا ہوا اک تماشا بنا ہوں
جسے دیکھ کر زندگی سیٹیاں اب بجانے لگی ہے
ازل سے یہ دستور قائم ہوا ہے
کہ مفلس کی اولاد بھی مفلسی کاٹتی ہے
چلو اب یہ دستور ہی توڑ ڈالیں
وہ یوں بڑبڑایا
تو پھر اس نے خنجر سے اپنے غریبی کے اکلوتے وارث کی سانسوں کی رسی کو ہی کاٹ ڈالا
وہ خوش تھا
کہ اب اس کا لخت جگر
مفلسی کی اذیت سے آزاد یوں ہو گیا ہے
کہ جیسے کسی قید سے کوئی پنچھی
تو فاقے کے دھاگوں میں الجھے بدن کی اچانک سے آنکھوں کے پردے ہٹے
اور وہ عالم خواب سے جاگ اٹھا
تو اس کی نگاہوں نے اپنے غریبی کے اکلوتے وارث کو دیکھا
تو رونے لگا وہ
کہ اس کی طرح اس کی غربت کا وارث غریبی کے شعلے نگلتا ہوا سانس کی خستہ رسی پہ چلنے لگا ہے
وہ بھی ایک سرکس کا جوکر بنا ہے
جسے دیکھ کر زندگی سیٹیاں پھر بجانے لگی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.