احمد نیاز رزاقی کے اشعار
قید ہونے کے لیے آ تو گیا ہوں لیکن
قید ہو جاؤں تو ہرگز نہ رہائی دینا
انہیں کیا پتہ مشک و عنبر ہے کیا شے
جو واقف نہیں میری اردو زباں سے
اسی لیے تو میں آنکھیں جھکائے رہتا ہوں
تری شبیہ نہ آئے خراب آنکھوں میں
وہ اب آتے نہیں دریا کنارے
اترتے تھے جو گہرے پانیوں میں
ایک سے پھرتے ہیں دیوانے جدھر بھی دیکھو
اب کوئی فرق نہیں شہر میں ویرانے میں
میں اپنے تلخ مسائل میں کھو گیا تھا کہیں
کہ آج رات کو پھر اس کو خواب میں دیکھا
صورتیں ٹوٹیں گی لیکن آئنہ رہ جائے گا
آئنہ گر ٹوٹ جائے گا تو کیا رہ جائے گا
دل صحرا میں ریت سدا اڑتی رہتی ہے
کب اس سے تعمیر کوئی درپن کرتا ہے
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں
اک حق تھا دوستی کا ادا ہو گیا ہوں میں
وہ تو پتھر ہے سر سے پاؤں تلک
وہ مری بندگی کو کیا جانے
اگر مجھ کو چھو لے وہ جان بہار
تو دست خزاں سے نکل جاؤں گا
سیر ساحل کو بہت آتے ہیں اجلے چہرے
تم بھی آ نکلو کبھی آ کے یہ منظر دیکھو
پتھروں پر نقش کرتا ہوں میں حرف این و آں
کیا پتہ مٹ جائے گا یا کچھ بنا رہ جائے گا