احمد وقاص مہروی کے اشعار
مستقبل کے خوف سے سہما رہتا ہوں
میں نے بوڑھے پیڑ کی آنکھیں دیکھی ہیں
بن رہی ہیں جال پھر سے مکڑیاں
ایک آوارہ سی مکھی کے لیے
قسمت کا مری حال بتاؤگے مجھے کیا
مزدور کے ہاتھوں پہ لکیریں نہیں ہوتیں
مجھے پارسائی کا دعویٰ نہیں ہے
فرشتہ نہیں میں نرا آدمی ہوں
میں نے کرنی ہے ستاروں سے کوئی راز کی بات
ابھی کچھ اور مرے قد کو بڑھایا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رات کو تارے گنتا ہوں اور روتا ہوں
کہنے کو تو میں بھی چھت پہ سوتا ہوں
حیات و موت کا یہ فلسفہ بجا لیکن
درون خاک مرا دل ضرور دھڑکے گا
کسی نے رنج دیا اور کسی نے گالی دی
بقدر ظرف نوازا ہے دوستوں نے مجھے
حیات و موت کا یہ فلسفہ بجا لیکن
درون خاک مرا دل ضرور دھڑکے گا
وہ جو انا کی قید میں اب تک ہے مطمئن
اب اس کے لوٹنے کا گماں کس لیے کریں
جس کی فطرت میں ہو بس ایک خدا کی پوجا
ایسی مٹی سے کوئی بت نہ بنایا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک مکمل واحد ہستی میری مالک پھر کاہے کو
کرچی کرچی ریزہ ریزہ پارہ پارہ میں آوارہ
ایسے میں کس کا بھروسہ کیجیے
جب کسی پیاسے کو پانی مار دے
آہ کرتا ہے تو زنجیر بھی رو پڑتی ہے
تو نے وحشی کی اذیت کو کہاں دیکھا ہے
مرے ہر طرف بس خدا ہی خدا ہیں
خداؤں میں سہما ہوا آدمی ہوں
وقت کے دائرے میں رہتے ہوئے
تھک چکا ہوں حیات سہتے ہوئے
کوئی صدی مری منتظر ہے کسی صدی سے گزر رہا ہوں
میں ایک منظر میں جی اٹھوں گا میں ایک منظر میں مر رہا ہوں
شب سیاہ کے ماتھے پہ لکھ رہا ہوں میں
زوال آدم خاکی کی داستان ہنوز
میں مانتا ہوں برا بیت بیت جائے گا
مگر وہ تیر جو تیری کماں سے آئے گا
سخت مشقت والے دن بھی کاٹے ہیں
خون رلانے والی راتیں دیکھی ہیں
جانب راہ عدم جو بھی سدھارے جائیں
عین ممکن ہے کسی روز پکارے جائیں
اس حرف با صفا نے تو سولی چڑھا دیا
وہ ایک حرف حق جو مرے حافظے میں تھا
اسی کے نور سے روشن ہیں کہکشائیں بھی
وہ ایک اسم جو میری زباں سے جاری ہے
جانب مقتل گھسیٹا جا رہا ہے
مجھ پہ یہ الزام ہے میں آدمی ہوں
آ جائے کوئی رنج مٹانے کو کہیں سے
افلاک سے اترے یا نکل آئے زمیں سے
آئینۂ حیات میں برسوں سے اے وقاص
ٹھہرا ہوا ہے عکس ترے خد و خال کا
کائناتوں کا الاؤ سرد ہوتا جا رہا ہے
زندگی کا سبز پتا زرد ہوتا جا رہا ہے