اختر حسین رائے پوری کے افسانے
جسم کی پکار
اسلم کی آنکھ دیر سے کھل چکی تھی لیکن وہ دم سادھے ہوئے بستر پر پڑا رہا۔ کمرے کے اندر بھی اتنا اندھیرا نہ تھا جتنا کہ باہر۔ کیوں کہ دنیا کہا سہ کے کا فوری کفن میں لپٹی ہوئی تھی تاہم اکا دکا کوئے کی چیخ پکار اور برف پر رینگتی ہوئی گاڑیوں کی مسوسی ہوئی آواز
مجھے جانے دو
’’مجھے جانے دو‘‘ اس نے کہا اور جب تک میں اسے روکوں وہ ہاتھ چھڑا کر جا چکی تھی۔ اندھیرے میں اس کی آنکھوں کی ایک جھپک اور دہلیز پر پاؤں کے بچھوے کی ایک جھنک سنائی دی۔ وہ چلی گئی اور میں کوٹھڑی میں اکیلا رہ گیا۔ میں وہاں جانا نہ چاہتا تھا۔ میں اکثر
میری ڈائری کے چند ورق
12 جون اس عالم بیداری میں جانداروں کے اس اژدھام عظیم میں زندگی کی اس پر شور روانی میں رہتے ہوئے بھی محسوس ہوتا ہے کہ میں اکیلا ہوں۔ اکیلا، بالکل اکیلا، میری تنہائی اس قیدی سے بھی زیادہ المناک ہے جو ایک چہار دیواری میں بند ہونے کے بعد یہ سوچ ہی رہا
عورت
ایک ایسا زمانہ آیا جب تمام کائنات پر عقل و شعور کی حکومت کار فرما ہو گئی اور جذبات یکسر معدوم ہو گئے۔ اس کی تفصیل یوں ہے: جب سماج اور قدرت پر انسان نے ایسا تسلط حاصل کر لیا کہ نظام معاشی میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو سکے اور حیات و ممات کے مسائل
زبان بے زبانی
میں برگد کا ایک عمر رسیدہ درخت ہوں، غیر فانی اور ابدی! نہ جانے کتنی مدت سے میں تن تنہا اور خاموش کھڑا ہوں۔ برقرار نہ بیقرار! بےزبان اور نغمہ زن! یاد نہیں کتنی مرتبہ کڑکڑاتی سردیوں میں اپنی بےبرگ شاخوں سے کوہاسہ کی چادر ہٹا کر میں نے فریاد کی ہے، نہ
وہ دونوں
اندھیرے میں کچھ مردے چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔ اوپرموت کی ہلکی ہلکی تاریکی نور کی چٹانوں میں جم رہی تھی اور نیچے زندگی موریوں میں پگھل رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’آؤ اب ہم اس دنیا کی باتیں کریں جسے ہم ہمیشہ کے لئے چھوڑ آئے ہیں۔ دیکھو، مٹی کی
اندھا بھکاری
کلکتہ کا ایک مکروہ محلہ۔۔۔ پچھلے پہر کا وقت۔ جاڑے کی راتیں۔۔۔ ٹھنڈی ہوا کے جھکڑ۔ ہوا تاڑی اور بنگلا کی بدبو سے بوجھل ہو رہی ہے۔ گلیوں میں آبخوروں کے ٹکڑے، بوتلوں کی کرچیں، جھوٹے پتل اور انڈوں کے چھلکے بکھرے پڑے ہیں۔ طوائفیں منہ چھپائے سو رہی ہیں۔
موت
وہ ایک اندھیری کوٹھری میں دم توڑ رہا تھا۔ یہ نہیں کہ کوٹھری میں روشنی نہ آ سکتی ہو۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا، کھڑکی میں اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔ روشن داں کے منہ پر ایک مکڑی نے بڑا سا جالا بن دیا تھا۔ جالے کے ارد گرد زندگی کی زنجیر، اندر موت کی