ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں
اختر علی خاں اختر 16 اکتوبر 1940 کو شاہجہانپور ( بھارت) میں پیدا ہوئے۔ سن 1961 سے 2000 تک او۔ سی۔ ایف۔ (OCF) شاہجہانپور میں ملازم رہے اور 5 سال تک فیکٹری کے ادبی رسالے " پرتیبھا " ( اُردو اور ہندی) کی کامیاب ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔1960 سے ابھی تک بھارت اور غیر ملکی تمام رسالوں میں پابندی سے شائع ہونے والے منفرد شاعر۔ اب تک چار شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جِن میں 'دستک'،'سائبان'، 'برگِ نو' اور 'تکمیل' شامل ہیں۔ تازہ ترین شعری مجموعہ 'تشکیل' زیرِ طباعت ہے۔
نثری تصانیف میں 'نقد و نظر' اور 'تفہیم' ( تنقیدی مضامین ) کے علاوہ 'تلاش و تعمیر' ( اختر شاہجہانپوری کے فن اور شخصیت پر مشاہیر کے مضامین ) 'ترسیل'، 'بزمِ چراغاں' اور 'مہرباں کیسے کیسے' ( مشاہیر کے خطوط بنام اختر شاہجہانپوری ) بھی شائع ہوئی ہیں۔ آپ کو اُتر پردیش اُردو اکادمی اور بہار اُردو اکادمی نے شعری اور مضامین کے مجموعوں پر انعامات سے نوازا ہے۔ کویت بزمِ سخن کویت ایوارڈ، سعودی عرب ادبی ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ، اختر اورینوی ایوارڈ، دیشا ادبی ایوارڈ اور جنپد رتن شاہجہانپور جیسے گراں قدر ادبی اعزازات بھی پیش کیے گئے ہیں۔