علی اثر باندوی کے اشعار
اس بے خبر کی نیند کا عالم نہ پوچھیے
تکیہ کہیں ہے زلف کہیں اور کہیں بدن
تو تو محلوں میں رہتی ہے یہ تجھ کو معلوم نہیں
صحراؤں میں میں بھٹکا ہوں ہجر کی وحشت مجھ سے پوچھ
احساس تشنگی نہ تھا صحرا میں کچھ مگر
لب خشک ہو رہے ہیں سمندر کو دیکھ کر
ہجر کا مارا ہوں ٹیبل پر یہی سب پاؤ گے
ادھ لکھے خط بکھرا البم اور خالی بوتلیں
عشق میں کوئی بھی سرحد ہمیں منظور نہیں
عشق سرحد کے تو اس پار بھی ہو سکتا
جن کے دامن میں میرے خون کے چھینٹے تھے اثرؔ
اب وہ شفاف لباسوں میں نظر آتے ہیں
خواب کے جیسا نہ پایا خواب کی تعبیر سے
درد وحشت ہجر صحرا ہی ملا تقدیر سے
جو پہلے آنکھ سے اوجھل ہوا تھا
وہ اب دل سے بھی رخصت ہو رہا ہے
تمہارے ہجر نے ہی تو ہمیں شاعر بنایا ہے
تمہارے ہجر پہ ہم کو کئی دیوان لکھنے ہیں
تلخی کے ساتھ کیجے نہ ترک تعلقات
چبھتا رہے گا ورنہ یہ لہجہ تمام عمر