علی ظہیر رضوی لکھنوی کے اشعار
ہماری زندگی کیا ہے محبت ہی محبت ہے
تمہارا بھی یہی دستور بن جائے تو اچھا ہو
نفرت سے محبت کو سہارے بھی ملے ہیں
طوفان کے دامن میں کنارے بھی ملے ہیں
ذرا پردہ ہٹا دو سامنے سے بجلیاں چمکیں
مرا دل جلوہ گاہ طور بن جائے تو اچھا ہو
وہ تو تھا آدمی کی طرح ظہیرؔ
اس کا چہرہ فرشتوں جیسا تھا
راز غم الفت کو یہ دنیا نہ سمجھ لے
آنسو مرے دامن میں تمہارے بھی ملے ہیں
مرا خون جگر پر نور بن جائے تو اچھا ہو
تمہاری مانگ کا سیندور بن جانے تو اچھا ہو
کان سنتے تو ہیں لیکن نہ سمجھنے کے لئے
کوئی سمجھا بھی تو مفہوم نیا مانگے ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ