عرشی ملک کے اشعار
تو چھڑا کر ہاتھ اک دن دفعتاً کھو جائے گا
اور میری جیب میں تیرا پتہ رہ جائے گا
سب کے سب مل کر بھی مجھ کو زیر کر سکتے نہ تھے
میرا اپنا ہاتھ شامل ہے مری پسپائی میں
کسی کے لہجے کی یخ بستگی قیامت تھی
ٹھٹھر کے رہ گیا لب پر سوال کا موسم
اک عمر سے الفت کے کٹہرے میں کھڑا ہے
بھگتائے ہیں اس دل نے مقدمات مسلسل
ترے اخلاق و خصائل تری پہچان بنیں
نام لوگوں کو قبیلے کا بتانا نہ پڑے
کود کر دیوار عرشیؔ غم گھروں میں آ بسے
انگنت تعویذ دروازوں پہ لٹکے رہ گئے
اک لفظ بھی نہ لب سے کہا اور رو دیئے
عرشیؔ اٹھائے دست دعا اور رو دئیے