آصف الدولہ کا تعارف
اودھ کے چوتھے نواب آصف الدولہ لکھنوی تہذیب و ثقافت اور اردو شاعری کے اس اسلوب کے بانی تھے جسے بعد میں دبستان لکھنو کے نام سے جانا گیا۔ اودھ کے پہلے تین نواب برہان الملک، صفدر جنگ اور شجاع الدولہ اپنی زندگی میں جنگی مہموں اور سلطنت کے استحکام میں مصروف اور دہلی حکومت کے تابع تھے۔ ان کے زمانہ میں اودھ کا دارالحکومت فیض آباد تھا اور لکھنو ایک معمولی قصبہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ 1775ء میں شجاع الدولہ کی موت کے بعد آصف الدولہ تخت نشین ہوئے تو انہوں نے اودھ کو دہلی سے جداگانہ سیاسی،ثقافتی اور تہذیبی شناخت دینے کے اقدام کئے۔ یہ اور بات کہ دہلی کا جُوا پوری طرح اتار پھینکنے اور اپنی بادشاہت کا اعلان کرنے کا کام ان کے جا نشینوں نے کیا۔ آصف الدولہ کے زمانہ میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بد حالی کا شکار تھی۔ انہوں نے وہاں سے ترک سکونت کرنے والے اہل کمال کا نہ صرف لکھنؤ میں خیر مقدم کیا بلکہ سفر خرچ بھیج کر ان کو لکھنٔو بلایا۔ انہوں نے تمام فنون کے ماہرین کو لکھنؤ میں جمع کر لیا اور لکھنؤ کو ایسا مقناطیس بنا دیا کہ جس کی طرف ہندوستان کے ہی نہیں ایران و عراق کے بھی اہل کمال کھنچے چلے آئے۔ آصف الدولہ لکھنؤ کو وہ بنانا چاہتے تھے جو شاہجہاں نے دہلی کو بنایا تھا۔
آصف الدولہ کا نام محمد یحیٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اور انہوں نے اردو فارسی میں اچھی مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصف الدولہ صاحب ذ وق تھے اور شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کے تعلقات اپنی ماں سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ ان کے والد شجاع الدولہ کو بکسر کی جنگ کے بعد ایک کثیر رقم انگریزوں کو بطور تاوان جنگ ادا کرنی پڑی تھی۔ اس وقت ان کی ماں نے زبردست ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تن کے زیورات بھی شوہر کے حوالے کر دئے تھے۔ ان کی اس قربانی سے شجاع الدولہ اتنے متاثر ہوئے تھے کہ بعد میں انھوں نے اپنی تمام نجی دولت بیوی کی تحویل میں دے دی تھی۔ باپ کی موت کے بعد جب آصف الدولہ نے اپنا ترکہ طلب کیا تو ماں نے دینے سے انکار کر دیا۔ آصف الدولہ کی ماں کے مزاج میں رعونت اور حکمرانی تھی اور آصف الدولہ کسی کے تابع رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا دار الخلافہ لکھنؤ منتقل کر دیا۔ لکھنؤ آ کر انہوں نے سب سے پہلے شہر کی تعمیر پر توجہ کی۔ اور لکھنؤ میں دن رات نئی نئی عمارتیں کھڑی ہونے لگیں۔ تعمیرات کی رفتار اسی زمانہ میں پھیلے قحط نے اور بھی تیز کر دی اور یہ تعمیراتی کام راحت رسانی کا بھی ایک کام بن گیا جس نے ہزاروں لوگوں کو روزگار دیا۔ بہت سے شرفاء قحط کی وجہ سے محنت مزدوری پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کی پردہ داری کے لئے کچھ عمارتیں صرف رات کے وقت تعمیر کی جاتی تھیں۔ ان کے عہد میں کہاوت تھی "جسے نہ دے مولا، اس کو دیں آصف الدولہ"۔ ان کا اسی زمانہ کا شعر ہے "جہاں میں جہاں تک جگہ پائیے*عمارت بناتے چلے جائیے""
جہاں تک امور سلطنت کا سوال ہے سیاسی اور فوجی سطح پر انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے کبھی انگریزوں سے دب کر یا جھک کر بات نہیں کی، ان کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ تھے۔ وہ ایک نواب کی طرح ان کو اور ان کی بیگمات کو تحفہ تحائف سے نوازتے تھےاور سلطنت کے امور پر ان سے خود بات کرنے کے بجائے اپنے وزیروں کو بھیجتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کسی بیرونی جارحیت کے خلاف ان کی سلطنت کے تحفظ کی ضامن تھی۔ اس طرف سے مطمئن ہو کر انہوں نے اپنی ساری توجہ سلطنت کے جداگانہ تشخص کی تعمیر پر لگا دی۔ وہ اپنی سلطنت کو ہر اعتبار سے مثالی بنانا چاہتے تھے اور ان کو کسی لحاظ سے کسی کے زیر اثر رہنا پسند نہیں تھا۔ محل کی سازشوں سے بچنے اور رعایا سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے مقصد سے انہوں نے کم رتبہ لوگوں کو وزارتیں اور عہدے دئے۔ تا کہ وہ ان کے احسان تلے دبے رہ کر کسی سازش یا شورش میں ملوث نہ ہوں۔ ان کے اہم وزیر شیعہ تھے یا ہندو۔ اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ تھا کہ اودھ میں مخلوط ہندو-مسلم تہذیب نے جڑیں پکڑیں۔ جو گنگا جمنی تہذیب کہلاتی ہے۔ ریاست میں ہندؤں کی کثیر اکثریت دیکھتے ہوئے انہوں نے رعایا کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کے عہد میں بڑے پیمانہ پر مندر تعمیر ہوئے۔ علی گنج کا مشہور ہنومان مندر ان کے ہی عہد میں راجہ جاٹ مل نے تعمیر کرایا۔ راجہ ٹکیت رائے ان کے وزیر مالیات تھے۔ راجہ نے بہت سے تالاب اور مندر بنوائے۔ لکھنؤ کا مشہور جگن ناتھ مندر بھی آصف الدولہ کے عہد میں تعمیر ہوا جس کے لئے نواب نے زمین دی۔ اس مندر کی چوٹی پر ترشول کی جگہ ہلال نصب کیا جانا اس عہد کے ہندو-مسلم بھائی چارے کی ایک بڑی علامت ہے۔ وہ ہندو سنتوں اور فقیروں کی بڑی عزت و تکریم کرتے تھے۔ بابا کلیان گری ہردوار چھوڑ کر ان کے عہد میں لکھنؤ آ گئے تھے اور وہیں انہوں نے کلیان گری مندر تعمیر کیا۔ آصف الدولہ کے قریبی مصاحبین میں بھوانی مہرا تھے جو ذات کے کہار تھے اور راجہ مہرا کہلاتے تھے۔ وہ نواب کے خزانہ کے غیر سرکاری محافظ تھے۔ جب انگریزوں نے راجہ ٹکیت رائے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تو نواب نے ان کی جگہ ایک دوسرے ہندو جھاؤ مل کا انتخاب کیا۔ آصف الدولہ کے دربار میں سورت سنگھ اور تھاپر سنگھ کو بھی عروج حاصل ہوا۔ ان کی پالکی برداروں میکو سنگھ، شوبھا سنگھ، بھولا سنگھ اور موتی سنگھ کو خاص درجہ حاصل تھا اور وہ دربار میں حاضر ہو سکتے تھے۔
آصف الدولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی گزرگاہ بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتیں،خصوصاً رومی دروازہ اور امام باڑہ فن تعمیر کا اچھوتا نموونہ ہیں جنہیں دیکھ کر آج بھی لوگ عش عش کرتے ہیں۔ آصف الدولہ نے اپنی فیاضی اور دریا دلی کے ساتھ فیض آباد، دہلی، اور مشرقی تہذیب کے دوسرے سر چشموں سے آب زندگانی کی نہروں کا رخ لکھنؤ کی طرف موڑا۔ ان ہی کے عہد میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسے اہل کمال لکھنؤ آئے۔ سوز کو انہوں نے شاعری میں اپنا استاد بنایا۔ آصف الدولہ نے جس ثقافتی خود مختاری کی بنیاد رکھی اس پر نئی اردو زبان کی عمارت تعمیر ہوئی۔ اردو شاعری محزونی اور درد مندی کے ماتم کدہ سے نکل کر شوخی اور رنگینی کی طرف مائل ہوئی جس نے بالآخر دبستان لکھنؤ کی شکل اختیار کی۔ آصف الدولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان کے ہی عہد میں لکھی گئیں۔ ساتھ ہی مرثیہ نگاری اور مرثیہ خوانی کی ایسی فضا تیار ہوئی جس نے میر انیس اور مرزا دبیر جیسے بے مثل مرثیہ نگار پیدا کئے۔ آصف الدولہ کو ایک فیاض اور دریا دل حکمراں، فنون کے قدر دان اور سرپرست، عظیم الشان عمارتوں کے معمار اور ہندستان کی گنگا جمنی تہذہب کے علمبردار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔