اطیب قادری کے اشعار
تمہارے ہجر میں جب بھی کلنڈر پر نگاہ ڈالی
ستمبر کے مہینے کو ستم گر ہی پڑھا میں نے
پوچھنے والوں نے پوچھا ہاتھ کیسے جل گیا
کیسے بتلائیں کسی کے دل پے رکھا تھا کبھی
کوئی کشتی کہیں مغرور ہو جائے نہ پانی میں
سکوت بحر کو قصداً تلاطم ہونا پڑتا ہے
جن کی انگلی تھام کے چلنا سیکھا تھا
ہائے اب ان کو بوڑھا ہوتے دیکھنا ہے
ہمارے سر پہ پیچ و خم کا یہ صافہ وراثت ہے
کہ تم پگڑی سمجھتے ہو جسے ہم تاج کہتے ہیں
اگلی نسلیں کر سکیں تفریق دنیا و ارم
ماؤں کے قصوں میں بھی شداد ہونا چاہیئے