اظہر بخش اظہر کے اشعار
کہو حسن جمال یار سے یہ اتنی سج دھج کیوں
بھری برسات میں پودوں کو پانی کون دیتا ہے
خوں بہا دیتے ہیں ظالم تخت پانے کے لئے
لوگ کتنا گر گئے خود کو اٹھانے کے لئے
حسن کی دیوی بنی بیٹھی ہیں دل ہے بت کدہ
چند مسلم لڑکیوں نے ہم کو ہندو کر دیا
ہر وقت کسے رہتے ہیں ماؤں کی پیٹھ سے
گودی میں نہیں کھیلتے مزدور کے بچے
ذلت سے تو بہتر ہے کہ اک جنگ لڑو تم
یوں ہار بھی جاؤ گے تو بزدل نہ رہو گے
جب کمسن سے عشق لڑانا پڑتا ہے
بچوں جیسا پاٹھ پڑھانا پڑتا ہے
ہمارے جتنے بچے تھے پرندے ہو گئے سارے
یہ وہ گھر ہے جہاں پر اب کوئی بچہ نہیں رہتا
دے کر فریب مجھ کو گیا تھا وہ شوخ تن
کھا کر فریب لوٹا تو سینے سے لگ گیا
ان کے خیموں میں ہیں سب لوگ کمر بستہ مگر
ہم میں غفلت کی ہے بھر مار خدا خیر کرے
تم نے دیکھا نہیں ہوگا کبھی ایسا قاتل
جو لہو چوسنے کا جشن منانے نکلے
اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے
کاش کہ تو مرا محبوب خیالی ہو جائے
تم چتا ان کی جلاؤ نہ کرو دفن انہیں
پیار کے خط ہیں یہ ہندو یا مسلمان نہیں