اظہر اقبال
غزل 10
اشعار 11
پھر اس کے بعد منایا نہ جشن خوشبو کا
لہو میں ڈوبی تھی فصل بہار کیا کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گھٹن سی ہونے لگی اس کے پاس جاتے ہوئے
میں خود سے روٹھ گیا ہوں اسے مناتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہے اب بھی بستر جاں پر ترے بدن کی شکن
میں خود ہی مٹنے لگا ہوں اسے مٹاتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یہ کیفیت ہے میری جان اب تجھے کھو کر
کہ ہم نے خود کو بھی پایا نہیں بہت دن سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 1
تصویری شاعری 3
وہ ماہتاب ابھی بام پر نہیں آیا مری دعاؤں میں شاید اثر نہیں آیا بہت عجیب ہے یاروں بلندیوں کا طلسم جو ایک بار گیا لوٹ کر نہیں آیا یہ کائنات کی وسعت کھلی نہیں مجھ پر میں اپنی ذات سے جب تک گزر نہیں آیا بہت دنوں سے ہے بے_شکل سی میری مٹی بہت دنوں سے کوئی کوزہ_گر نہیں آیا بس ایک لمحہ کو بے_پیراہن اسے دیکھا پھر اس کے بعد مجھے کچھ نظر نہیں آیا ہم اب بھی دشت میں خیمہ لگائے بیٹھے ہیں ہمارے حصے میں اپنا ہی گھر نہیں آیا زمین بانجھ نہ ہو جائے کچھ کہو اظہرؔ سخن کی شاخ پہ کب سے ثمر نہیں آیا