بھگوان داس اعجاز کے دوہے
اکسمات ہونے لگی پھولوں کی برسات
جب سیمائیں پیار کی ٹوٹیں آدھی رات
ہم اس گھر میں ہیں گھرے جس کے آنکھ نہ کان
نکل بھاگنا بھی کٹھن دانتوں بیچ زبان
خود ہی اپنی موت کا باندھے ہے سامان
انجانے ہیں راستے راہی ہے نادان
جل گئی اپنی آگ سے جنگل کی سب گھاس
دھرتی تب دلہن بنے جب ہو ساون ماس
ہاں بھئی وہ بھی تھا سمے بھولے بھالے لوگ
سنتے تھے کہ رات میں چڑیا چگتی چوگ
منزل سے سائے کی طرح پیچھے پیچھے جائے
کھلے کواڑوں جب کوئی اپنا در کھٹکائے
کٹھن راہ اپکار کی اتنا رہے خیال
پگڑی ذرا سی بھول پر دیتے لوگ اچھال
دوش پرائے سر مڑھے بھیتر باہر روئے
ہر کوئی اپنی راہ میں آپ ہی کانٹے بوئے
شہنائی کی جب کہیں کان پڑے آواز
جل بن مچھلی کی طرح تڑپ اٹھے اعجازؔ
اوپر جا کر کٹ گیا میں پتنگ مانند
اترا جیسے آنکھ میں کوئی موتیابند
لگی آتما کوسنے ڈسنے لگا خیال
کیوں دوجے کے دوش کو اتنا دیا اچھال
کان پکڑ توبہ کیے ایسی بکری پال
دودھ دیا سو کیا دیا دیا مینگنی ڈال
دغاباز مکار کے اور دیکھ انداز
ہاں رسی تو جل گئی گئے نہ بل اعجازؔ
آسمان پر چھا گئی گھٹا گھور گھنگور
جائیں تو جائیں کہاں ویرانے میں شور
کہیں تجھے لگ جائے نہ پردیسن کی ہائے
آ ساجن اب لوٹ کے ساون بیتا جائے
سو جا سونے دے مجھے مت کر نیند خراب
دانے اپنی گانٹھ کے بنا بھوک مت چاب
تو میری اردھانگنی لی میں نے سوگندھ
آنسو ٹپکے پیار کے کر لی آنکھیں بند
بیگانوں سے کیا گلہ گھر میں ہے غدار
آس پاس رکھیے نظر آنکھیں رکھیے چار
جو دیکھا سمجھا سنا غلط رہا میزان
اور نکٹ آ زندگی ہو تیری پہچان
سکھی بہت اولے پڑے برکھا کے اپرانت
ہوئی نہ کم برہا اگن تن من اور اشانت
ہم جگ میں کیسے رہے ذرا دیجئے دھیان
رات گزاری جس طرح دشمن گھر مہمان
موسم اچھا ہے اسے اور اچھا کر یار
بولے چہرہ دیکھ کر ابھی نہیں آثار
جگنو چمکے آس کے اجلی ہو گئی شام
پنچھی ان کے گاؤں سے لایا ہے پیغام
بھیتر کیا کیا ہو رہا اے دل کچھ تو بول
ایک آنکھ روئے بہت ایک ہنسے جی کھول
تھم جا رے بدرا کروں تیری جے جے کار
پی گھر آویں تو برس برس موسلا دھار
کہنے لگے اب آئیے سر پر ہے تہوار
گھر میرا نزدیک ہے تاروں کے اس پار
مر گئی مارے لاج کے پوچھا توڑا مون
چوہوں کو بل کھودنا سکھلاتا ہے کون
وہ نرلج نردئی مجھے سمجھے دھوبی گھاٹ
ہاتھی ناچے کھاٹ پہ کھاٹ پڑے چوپاٹ
مہا نگر میں آن کے بھولے دعا سلام
ہمسایہ جانے نہیں ہمسائے کا نام
ابھی ملن کو ساجنا دن نا بیتے چار
سینے پر رکھ کر شلا دو دن اور گزار
دنیا تھک گئی پوچھتے رہے سدا ہم مون
سمجھے گا تیرے سوا من کی بھاشا کون
وہ چنچل کل شام کو لیے ہاتھ میں ہاتھ
لوک لاج کو تیاگ کر ناچی میرے ساتھ
سینے کے بل رینگ کر سیمائیں کیں پار
میں بونوں کے گاؤں سے گزرا پہلی بار
پیاسے ہونٹوں کو ملی ٹھنڈی ہوا سے آنچ
دو جسموں کی آنچ سے لگا پگھلنے کانچ
دنیا سے اوجھل رہے لیا لبادہ اوڑھ
سارے تن پر چھا گیا من کا کالا کوڑھ
مالا جپتا نام کی وہ دیوانہ شام
اچھا لگے پکارتا میرا میرا نام
کہیں گگن کے پار ہوں کہیں بیچ پاتال
میرے چاروں اور ہے تصویروں کا جال
ہوگی اک دن گھر مرے پھولوں کی برسات
میں پگلا اس آس میں ہنستا ہوں دن رات
باتیں ہوں گی پیار کی ملا آج ایکانت
نین اتاریں آرتی من کا سنشیے شانت
جھونکی طوطا چشم نے مری آنکھ میں دھول
بند لفافے میں مجھے اس نے بھیجے شول
نین چین موسم سماں سب کچھ لیتا چھین
یہ گھر اپنا ہے ہمیں ہوتا نہیں یقین
من اپنا بہروپیا دھارے کتنے روپ
نٹکھٹ پہچانے نہیں چڑھتی ڈھلتی دھوپ
ابھی لفافہ بند تھا پڑھتا کرتا غور
جو بھیجا گم ہو گیا لکھو ایک خط اور
جوگی آیا دوار پر خالی لوٹا کال
روگی ماٹی چاٹ کر اٹھ بیٹھا تتکال
بھانڈا سب کے سامنے دیا بھاگ نے چھوڑ
اولے اپنے گھر پڑے برکھا چاروں اور
ناکوں چبوائے چنے ہم نے کتنی بار
ہمسایہ بے شرم ہے جب دیکھو تیار
رات بتائیں گے وہیں آئے تھے من ٹھان
تم کہہ کر تو دیکھتے ہم جھٹ جاتے مان
آج مجھی پر کھل گیا میرے دل کا راز
آئی ہے ہنستے سمے رونے کی آواز
ڈھگ ڈھلان رستہ وکٹ ساؤدھان انجان
گاڑی تیری کانچ کی ہے لوہے کا سامان
مجھے تھما کر جھنجھنا لوگ لے گئے مال
بھل منسائی میں رہے ہم ٹھن ٹھن گوپال