بلہے شاہ کا تعارف
تخلص : 'بلہے'
بلہے شاہ کی زندگی کے حالات ویسے تو تفصیلی طور پر کہیں نہیں ملتےاور ان کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں کوئی مصدقہ ذریعہ نہیں ملتا۔ کچھ لوگوں نے ان کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ سب سے پہلے فارسی نثر کی کتاب ’خزینۃ الاصفیا‘ جسے مفتی غلام سرور لاہوری نے 1864 میں مکمل کیا ۔ یہ کتاب بلہے شاہ کی وفات سے لگ بھگ 100 سال بعد کی ہے ۔ اس کے بعد دوسری اہم کتاب ’باغ اولیائے ہند‘ ہے۔ یہ کتاب پنجابی شاعری پر مولوی محمد دین شاہ پوری کی تحریر کردہ ہے جس میں بلہے شاہ کے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں لیکن ان کی سن ولادت اور جائے پیدائش سے متعلق سبھی مورخین خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ان کی پیدائش کے سن اور مقام کے متعلق صرف قیاس لگائے گئے ہیں۔ ’تاریخ نافع السالکین‘ کے مولف نے ان کی جائے پیدائش اوچ شہر کو مانتے ہیں۔ جب کہ لاجونتی رام کرشنا نے اپنی کتاب ’پنجابی صوفی شاعر‘اور میاں مولا بخش کشتہؔ نے اپنی کتاب ’پنجابی شاعراں دا تذکرہ‘ میں بیان کیا ہے کہ بلہے شاہ کی جائے پیدائش قصور ، ضلع لاہور ہے۔
بلے شاہ کے سن پیدایش کے بارے میں فقط سی۔ایف۔ اسبورن کے ایک کتابچہ بعنوان ’بلہے شاہ‘ میں ان کا سال وفات 1680 بیان کیا گیا ہے انہوں نے اس کی کوئی تصدیقی حوالہ بھی فراہم نہیں کیا ہے لیکن عام طور پر محققین نے اسے صحیح مان لیا اوران کا سن پیدائش یہی رائج ہو گیا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیرؔ اپنی کتاب ’بلہے شاہ‘ میں تاریخ ست ستارے کو حوالہ دیتے ہوئے سی۔ ایف اسبورن کی تردید کی اور 1148 ہجری مطابق 1735 عیسوی بلہے شاہ کا سال ولادت قرار دیا ہے۔ اسی طرح ان کے سال وفات کے بارے میں بھی تضاد بر قرار ہے۔ ’خزینۃ الاصفیا‘میں رقم کی گئی تاریخ ۱۱۷۱ ہجری مطابق 1757 عیسوی کو مصدقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا لیکن ڈاکٹر فقیر محمد فقیرؔ نے ایک تحقیقی مقالے کے حوالے سے یہ دعویٰ کیاہے کہ بلہے شاہ 1181 ہجری مطابق 1767 عیسوی تک باحیات رہے۔
چوں کہ بلہے شاہ کی حیات کے بارے میں کوئی تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان کے ہر ایک معلومات میں منفرد اور تضادات واقع ہونا لازمی ہے۔ ان کے نام بارے میں بھی یہی بات ہے ڈاکٹر فقیر محمد فقیرؔ نے ’کلیات بلہے شاہ‘ کے تعارف میں اورینٹل کالج میگزین کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ بلہے کا شاہ کا نام میر بہلی شاہ قادری شطاری قصوری ہے۔ ’تاریخ نافع السالکین‘ کے مطابق بلہے شاہ کے باپ نے ان کا نام عبداللہ شاہ رکھا تھا۔
بلہے شاہ کے والد سخی شاہ محمد درویش نے اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے اوچ گیلانیان کا گاؤں چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت بلہے شاہ فقط 6 سال کے تھےاورملک وال کے علاقے میں جا بسے تھے۔ چودھری پانڈو بھٹی کسی ذاتی کام سے ملک وال کے نزدیک تلونڈی میں آئے تھےان کو یہ بات معلوم پڑی کہ وال کے میں ایک مولوی آکر بسے ہیں ۔ اس وقت پانڈو کی ، کی مسجد کےامام کے فریضہ کو انجام دینے کے لیے کوئی مولوی نہ تھا چنانچہ پانڈو بھٹی کے ہمرا یہاں کے لوگ متفقہ فیصلہ کے تحت شاہ محمد درویش کے پاس پہنچے اور انہوں نے ان کی درخواست قبول کر لی اور اپنے ساز و سامان کے ساتھ پانڈوکی منتقل ہو گئے۔
یہاں مسجد میں رہ کر شاہ محمد درویش مسجد سے متعلق ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ تعلیم و تربیت کا بھی بند و بست کیا ۔ اسی مسجد میں بلہے شاہ اپنے والد سے ابتدائی علم حاصل کرنے لگےاور ساتھ ہی وہ گاؤں میں مویشی چرانے کا کام بھی کرتے تھے۔ اس بات کا کوئی مصدقہ حوالہ نہیں ملتا کہ شاہ محمددرویش کے آبا و اجداد کہاں سے تھے لیکن فقیر محمد فقیرؔ یہ بیان کرتے ہیں کہ بلہے شاہ بخاری سیدوں کے خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔
سخی محمد درویش کا مقبرہ پانڈوکی گاؤں ہے جہاں بلہے شاہ کے یوم وصال پر ہر سال عرس کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس روز دور دراز کے قوال ان کے روضہ پر حاضری دیتے ہیں اور بلہے شاہ کی کافیاں پیش کرتے ہیں۔
بلہے شاہ کے مرشد شاہ عنات اگر چہ ایک قادری صوفی تھے لیکن ان کو شطاری درویش حضرت رضا شاہ شطاری نے صوفیانہ عظمتوں سے روشناس کیا تھا۔ چنانچہ وہ قادری شطاری کے طور پر مشہورہے اور انہیں نسبت سے ان کے مردی بلہے شاہ بھی قادری شطاری کہلائے۔
بلہے شاہ فارسی اور عربی کے مشہور عالم مرتضیٰ قصوری سے انہوں تعلیم حاصل کی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشہور قصہ ’ہیر رانجھا‘ کے مصنف سید وارث شاہ کے ہم جماعت تھے۔ بلہے شاہ نے شادی نہیں کی اور عمر بھر کنوارے رہے اسی طرح ان کی بہت بھی تھی جس نے شادی نہیں کی اور اپنی ساری عمر مراقبے اور ذکر و اذکار میں گزار دی۔
بلہے شاہ ایک سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے مرشد شاہ عنایت ایک باغباں (ارائیں) تھے جو مسلم معاشرے میں ایک نیچی ذات سے تسلیم کیے جاتے تھے ۔ جب بلہے شاہ ان سے بیعت ہوئے تو ان کے خاندان اور رشتہ داروں نے اس پر سخت اعتراض جتایا اور بہت ناراض ہوئے۔ بلہے شاہ اپنے کافیوں میں بھی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔
کچھ دنوں کے بعد بلہے شاہ اور مرشد کے درمیان شریعت کو لے کر کچھ نااتفاقی ہو گئی اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ عنایت اپنے مرید کو ایک روحانی نظم و ضبط میں بندھا ہو دیکھنا چاہتے تھے اور وہ بلہے شاہ کے باغیانہ اظہار خیالات کی وجہ سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے اپنے مرشد کی ہدایت کو نظر انداز کیااور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا مرشد کے قیام گاہ پر آنا ممنوع قرار دیےدیا گیا۔ قلیل عرصہ ہی میں بلہے شاہ اس کوشش میں لگ گئے کیسے مرشد تک رسائی ہو۔ متعدد حربہ اور طریقہ استعمال کرتے تاکہ ان کے دربار تک رسائی ہو سکے۔ آخر میں انہوں نے محفل سماع آراستہ کرنے کا خیال کیا جس کے لیے انہوں نے موسیقی اور رقص سیکھا ۔ چوں کہ سلسلہ چشتیہ کے یہاں محفل سماع اور موسیقی کی اجازت ہے ۔ جب کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ محفل سماع کا آغاز عبد القادر جیلانی کے اول جانشین شاہ شمس الدین نے 1170 عیسوی میں اس کا آغاز کیا تھا۔اپنے منصوبے کے تحت بلہے شاہ روز عنایت شاہ کے مسجد جانے کے راستے پر اپنی محفل کا انعقاد کرتے ۔ ایک دن عنایت شاہ نے اس محفل سے آنے والی درد و رنج سے بھری آواز کو سنا جو ان کو ہی مخاطب تھی۔ وہ محفل میں گئے اور پوچھا کیا تم بلہے ہو؟ بلہے شاہ نے فرمایا کہ میں بلہا نہیں لیکن بُھلّا ہوں۔ بھُلّا کا مطلب نادم اور شرمندہ کے ہوتا ہے۔ مرشد نے وہیں بلہے کو معاف کر دیا۔
بحوالہ: ہندوستانی ادب کے معمار : بلہے شاہ، مصنفہ: سریندر سنگھ کوہلی