بشریٰ بختیار خان کے اشعار
میں چاہوں بھی تو زمانہ بدل نہیں سکتی
کہ بشریٰؔ لوگ یہاں جھوٹ بولتے ہیں بہت
ہم منزلوں کے باسی کب سے بھٹک رہے ہیں
کب راہ پر چلے گا یہ راستہ ہمارا
جس روپ میں بھی چاہو ہم آ ملیں گے تم کو
نور اور خاک تک ہے سب سلسلہ ہمارا
اسے کہو کہ اسے بخش دوں گی سارا جہاں
اسے کہو کہ مری سمت ایک بار آئے
ہمیں تو سانس بھی لینے کی فرصتیں نہ رہیں
کسی کی یاد کے منہ زور سلسلے ہیں بہت
دیر و حرم پکارنے آئے ہمیں مگر
لیکن خیال یار سے فرصت نہیں ملی
جب اپنی آنکھوں سے چہرے کئی اتار آئے
قدم قدم پہ کئی بار پھر غبار آئے
ظلمت کے کاروبار سے فرصت نہیں ملی
جس کو ترے دیار سے فرصت نہیں ملی