دیوانگ ٹھاکر کے اشعار
سب کو بتا دیا کہ میں بے حد اداس ہوں
اتنی سی بات کو بھی خبر کر دیا گیا
گھر کے اندر اتنے گھر ہیں اس کو کیسے توڑوں میں
یار کبوتر رہتے ہیں اس گھر کے روشن دانوں میں
سر پٹک کر دیکھنا ہے ایک بار
عشق کو پتھر کہا تھا میرؔ نے
اس کے دل سے نکلے تو ہم خود کے دل تک آ پہنچے
آنا جانا ہوتا رہتا ہے اپنا ویرانوں میں
تمہیں دیکھتا ہوں سو زندہ ہوں میں
مجھے سانس آتی ہے آنکھوں سے اب
اے سخت گیر آندھی اتنا خیال رکھنا
اک دل بھی جل رہا ہے اس بام پر ہمارا
یہاں تو پھول بھی آپس میں بات کرتے ہیں
تمہارے باغ میں بالکل ہوا کا شور نہیں
ملنا ہے تیری روح سے ہم کو بدن بغیر
اپنا لباس جسم اتارے ہوئے ہیں ہم
اس مصور کے ہنر کو دیکھ کر
رنگ خود میں بھر لیے تصویر نے
مرے زوال کی کوئی تو حد مقرر کر
تری نظر سے مسلسل اتر رہا ہوں میں