فخر عباس کے اشعار
اے محبت مجھ کو ایسا حوصلہ خیرات کر
اس کو بازو سے پکڑ کر کہہ سکوں کہ بات کر
مجھے ٹھکرا دیا تو نے فقط شاعر سمجھ کر آج
مری نظمیں ترے بچے سلیبس میں پڑھیں تو پھر
جب سے اس کی آنکھ میں آنسو دیکھے ہیں
تب سے مجھ کو پانی سے ڈر لگتا ہے
میں شہر میں تنہا ہی اسے ڈھونڈ رہا ہوں
جو سب سے چھپائی تھی وہی چیز گمی ہے
سر پر یہ جو چھت کا سایہ ہوتا ہے
دیواروں نے بوجھ اٹھایا ہوتا ہے
وہ چاہتا ہے مہینہ کٹے نہ جلدی سے
کرایہ دار کے دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں
کبھی کبھی تو مجھے داد اتنی ملتی ہے
کہ سارے گھر کا گزارہ اسی سے ہوتا ہے