فرح خان کے اشعار
نہیں نصیب میں منزل تو راستے کیوں ہیں
طویل تر یہ جدائی کے سلسلے کیوں ہیں
ہم بھول گئے عہد و کرم تیرے ستم بھی
اب تجھ سے زمانے سے گلہ کچھ بھی نہیں ہے
اس تیری محبت میں ملا کچھ بھی نہیں ہے
میں جان گئی ہوں کہ صلہ کچھ بھی نہیں ہے
اس کا ملنا ہے عجب طرح کا مجھ سے ملنا
دشت امکان میں ہو پھولوں کا جیسے کھلنا
مل ہی جاؤ گے مجھے وقت کی گردش سے پرے
بس ذرا جسم کی دیوار گرانی ہوگی
حد امکاں سے پرے تک میں تجھے چاہوں گی
تو مجھے اپنے میسر کی حدوں میں ملنا
نہ اس میں پھول کھلا اور نہ کوئی خواب اگا
کہ سنگلاخ بہت تھی زمیں حقیقت کی