فرحت عباس کے اشعار
جسے بھی دوست بنایا وہ بن گیا دشمن
یہ ہم نے کون سی تقصیر کی سزا پائی
کس سادگی سے وہ بھی دغا دے گیا مجھے
جس شخص نے کہا تھا کبھی دیوتا مجھے
فرحتؔ سناؤں کس کو کہانی میں گاؤں کی
گھر گھر میں زندہ لاشیں تھیں مجبور ماؤں کی
میرے ہر ایک سچ پہ انہیں جھوٹ کا گماں
کرتا ہے بد گمان خدا خیر ہی کرے
شہر کا شہر مری جاں کی طلب رکھتا ہے
آج سوچا ہے یہی جان کا صدقہ دے دوں
اک دوسرے سے خوف کی شدت تھی اس قدر
کل رات اپنے آپ سے میں خود لپٹ گیا
وہ میرے بخت کی تحریر کیوں نہیں بنتا
وہ میرا خواب ہے تعبیر کیوں نہیں بنتا
پھیلے ہیں سارے شہر میں قصے عجیب سے
گزرا ہے جب بھی پھول سا چہرہ قریب سے
چہرے بدل بدل کے کہانی سنا گئے
درد و الم فراق مری جاں کو آ گئے
یہ کائنات آج بھی منسوب آپ سے
یہ کائنات آج بھی جاگیر آپ کی
زلزلوں کی نمود سے فرحتؔ
مستقر مستقر نہیں رہتے
تعمیر کر گئے کبھی مسمار ہو گئے
لمحے مری اٹھان کو دیوار کر گئے
بے تابیٔ اظہار نے یوں خاک کیا ہے
دزدیدہ نگاہی نے مجھے چاک کیا ہے
دن نکلتے ہی بدن پر حبس کی یورش ہوئی
رات بھر سوچوں کے پتھراؤ سے سر جلتا رہا