حیدر علی آتش کا تعارف
تخلص : 'آتش'
اصلی نام : خواجہ حیدر علی
وفات : 13 Jan 1847 | لکھنؤ, اتر پردیش
رشتہ داروں : مصحفی غلام ہمدانی (استاد)
LCCN :n83167275
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
تشریح
یہ آتش کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ آرزو کے معنی تمنا، روبرو کے معنی آمنے سامنے، بے تاب کے معنی بے قرار ہے۔ بلبل بے تاب یعنی وہ بلبل جو بے قرار ہو جسے چین نہ ہو۔
اس شعر کا قریب کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہمیں یہ تمنا تھی کہ ہم اے محبوب تجھے گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو بے چین ہے اس سے بات چیت کرتے۔
لیکن اس میں در اصل شاعر یہ کہتا ہے کہ ہم نے ایک تمنا کی تھی کہ ہم اپنے محبوب کو پھول کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو گل کے عشق میں بے تاب ہے اس سے گفتگو کرتے۔ مطلب یہ کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم اپنے گل جیسے چہرے والے محبوب کو گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر اس بلبل سے جو گل کے حسن کی وجہ سے اس کا دیوانہ بن گیا ہے اس سے گفتگو کرتے یعنی بحث کرتے اور پوچھتے کہ اے بلبل اب بتا کون خوبصورت ہے، تمہارا گل یا میرا محبوب۔ ظاہر ہے اس بات پر بحث ہوتی اور آخر پر بلبل جو گل کے حسن میں دیوانہ ہوگیا اگر میرے محبوب کے جمال کو دیکھے گا تو گل کی تعریف میں چہچہانا بھول جائے گا۔
شفق سوپوری
تشریح
یہ آتش کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ آرزو کے معنی تمنا، روبرو کے معنی آمنے سامنے، بے تاب کے معنی بے قرار ہے۔ بلبل بے تاب یعنی وہ بلبل جو بے قرار ہو جسے چین نہ ہو۔
اس شعر کا قریب کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہمیں یہ تمنا تھی کہ ہم اے محبوب تجھے گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو بے چین ہے اس سے بات چیت کرتے۔
لیکن اس میں در اصل شاعر یہ کہتا ہے کہ ہم نے ایک تمنا کی تھی کہ ہم اپنے محبوب کو پھول کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو گل کے عشق میں بے تاب ہے اس سے گفتگو کرتے۔ مطلب یہ کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم اپنے گل جیسے چہرے والے محبوب کو گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر اس بلبل سے جو گل کے حسن کی وجہ سے اس کا دیوانہ بن گیا ہے اس سے گفتگو کرتے یعنی بحث کرتے اور پوچھتے کہ اے بلبل اب بتا کون خوبصورت ہے، تمہارا گل یا میرا محبوب۔ ظاہر ہے اس بات پر بحث ہوتی اور آخر پر بلبل جو گل کے حسن میں دیوانہ ہوگیا اگر میرے محبوب کے جمال کو دیکھے گا تو گل کی تعریف میں چہچہانا بھول جائے گا۔
شفق سوپوری
آتش کوعموماً دبستان لکھنؤ کا نمائندہ شاعر کہا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری میں دبستان دہلی کی شاعری کے آثار موجود ہیں اور وہ لکھنؤ کی خارجی اور دہلی کی داخلی شاعری کی حد فاصل پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر عشق و عاشقی کے شاعر ہیں لیکن ان کا کلام لکھنؤ کے دوسرے شاعروں کے بر عکس رکاکت اور ابتذال سے پاک ہے، ان کے یہاں لکھنویت کا رنگ ضرور ہے لیکن خوشبو دہلی کی ہے۔ اگر انہوں نے یہ کہا،
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
تو یہ بھی کہا،
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
آتش وجدان اور احساس جمال کے شاعر تھے۔ رام بابو سکسینہ ان کو غزل میں میر و غالب کے بعد تیسرا بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔
آتش کا نام خواجہ حیدر علی تھا اور ان کے والد کا نام علی بخش بتایا جاتا ہے۔ ان کے بزرگوں کا وطن بغداد تھا، جو تلاش معاش میں دہلی آئے تھےاور شجاع الدولہ کے عہد میں فیض آباد چلے گئے تھے۔ آتش کی پیدایش فیض آباد میں ہوئی۔ آتش گورے چٹے، خوبصورت، کشیدہ قامت اور چھریرے بدن کے تھے۔ ابھی پوری طرح جوان نہ ہو پائے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا اور تعلیم مکمل نہ ہو پائی۔ دوستوں کی ترغیب سے درسی کتابیں دیکھتے رہے۔ کسی نگراں کی عدم موجودگی میں ان کے مزاج میں آوارگی آگئی۔ وہ بانکے اور شورہ پشت ہو گئے۔ اس زمانہ میں بانکپن اور بہادری کی بڑی قدر تھی۔ بات بات پر تلوار کھینچ لیتے تھے اور کم سنی سے تلوارئے مشہور ہو گئےتھے۔ آتش کی صلاحیتوں اور سپاہیانہ بانکپن نے نواب مرزا محمد تقی خاں ترقی، رئیس فیض آباد، کو متاثر کیا جنہوں نے ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ پھر جب نواب موصوف فیض آباد چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے تو آتش بھی ان کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے۔ لکھنؤ میں اس وقت مصحفی اور انشاء کی معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر انھیں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے شاعری نسبتاً دیر سے، تقریباً 29 سال کی عمر میں شروع کی اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔ لکھنؤ میں رفتہ رفتہ ان کی صحبت بھی بدل گئی اور مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور رات دن علمی مباحث میں مصروف رہنے لگے۔ مزاج میں گرمی اب بھی باقی تھی اور کبھی کبھی استاد سے بھی نوک جھونک ہو جاتی تھی۔ لکھنؤ پہنچنے کے چند سال بعد ترقی کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد آتش نے آزاد رہنا پسند کیا، کسی کی نوکری نہیں کی۔ بعض تذکروں کے مطابق واجد علی شاہ اپنے ایام شہزادگی سے ہی 80 روپے ماہانہ دیتے تھے۔ کچھ مدد مداحوں کی طرف سے بھی ہو جاتی تھی لیکن آخری ایام میں توکل پر گزارہ تھا، پھر بھی گھر کے باہر ایک گھوڑا ضرور بندھا رہتا تھا۔ سپاہیانہ، رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے جس کے ساتھ ساتھ کچھ رنگ فقیری کا تھا۔ بڑھاپے تک تلوار کمر میں باندھ کر سپاہیانہ بانکپن نباہتے رہے۔ ایک بانکی ٹوپی بھنووں پر رکھے جدھر جی چاہتا نکل جاتے۔ اپنے زمانہ میں بطور شاعر ان کی بڑی قدر تھی لیکن انہوں نے جاہ و حشمت کی خواہش کبھی نہیں کی، نہ امیروں کے دربار میں حاضر ہو کر غزلیں سنائیں نہ کبھی کسی کی ہجو لکھی۔ استغنا کا یہ حال تھا کہ بادشاہ نے کئی بار بلوایا مگر یہ نہیں گئے۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد علی اور جوش تخلص تھا۔ آتش نے لکھنؤ میں ہی 1848ء میں انتقال کیا۔ آخری عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔
مذہباً اثنا عشری ہونے کے باوجود آتش آزاد خیال تھے۔ ان کا خاندان صوفیوں اور خواجہ زادوں کا تھا، پھر بھی انھو ں نے کبھی پیری مریدی نہیں کی اور درویشی و فقیری کا آزادانہ مسلک اختیار کیا، وہ تصوف سے بھی متاثر تھے جس کا اثر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ ان کا دیوان ان کی زندگی میں ہی 1845ء میں چھپ گیا تھا۔ شاگردوں کی تعداد بہت تھی جن میں بہت سے، بشمول دیا شنکر نسیم، نواب مرزا شوق، واجد علی شاہ، میر دوست علی خلیل، نواب سید محمد خان رند اور میر وزیر علی صبا اپنی اپنی طرز کے بے مثال شاعر ہوئے۔
آتش اور ناسخ میں معاصرانہ چشمک تھی لیکن وہ اس گھٹیا سطح پر کبھی نہیں اتری جس کا نظارہ اہل لکھنؤ مصحفی اور انشاء کے معاملہ میں دیکھ چکے تھے۔ اصل میں دونوں کے شاعرانہ انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ ناسخ کے پیرو مشکل مضامین کے دلدادہ تھے جبکہ آتش کے معتقدین محاورے کی صفائی، کلام کی سادگی، شعر کی تڑپ اور کلام کی تاثیر پر جان دیتے تھے۔ آتش نے اپنے استاد مصحفی کے نام کو روشن کیا بلکہ کچھ لوگ ان کو مصحفی سے بہتر شاعر مانتے ہیں۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں، ’’جو کلام ان کا ہے وہ حقیقت میں محاورۂ اردو کا دستور العمل ہے اور انشا پردازیٔ ہند کا اعلی نمونہ شرفائے لکھنؤ کی بول چال کا انداز اس سے معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح لوگ باتیں کرتے ہیں، انہوں نے شعر کہہ دئے۔‘‘
آتش عام طور پر اعلیٰ مضامین تلاش کرتے ہیں، ان کے اشعار میں شوخی اور بانکپن ہے۔ کلام میں ایک طرح کی مردانگی پائی جاتی ہے جس نے ان کے کلام میں ایک طرح کی جلالت اور متانت پیدا کر دی۔ ناسخ کے مقابلہ میں ان کی زبان زیادہ دلفریب ہے۔ غلط العام کو اشعار میں اس طرح کھپاتے ہیں کہ بقول امداد امام اثر "چہرۂ زیبا پر خال کا حکم" رکھتے ہیں۔ غالب کے نزدیک آتش کے یہاں ناسخ کے مقابلہ میں زیادہ نشتر پائے جاتے ہیں۔ عبد السلام ندوی کہتے ہیں، "اردو زبان میں رندانہ مضامین میں خواجہ حافظ کے جوش اور ان کی سرمستی کا اظہار صرف خواجہ آتش کی زبان سے ہوا ہے۔" آتش کی شاعری رجائی ار زندگی کی قوت سے بھر پور ہے۔ غم اور درد کا ذکر ان کے یہاں بہت کم ہے۔ ان کا توانا اور پرجوش لہجہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا سکھاتا ہے۔ ان کے کلام میں ایک طرح کی للکار اور آتش نوازی ملتی ہے، انہوں نے عام تشبیہات اور استعاروں سے ہٹ کر براہِ راست غزل کا جادو جگایا۔ ان کے اخلاقی اشعار میں بھی قلندرانہ انداز ہے۔
عجب قسمت عطا کی ہے خدا نے اہل غیرت کو
عجب یہ لوگ ہیں غم کھا کے دل کو شاد کرتے ہیں
ان کے بہت سے اشعار اور مصرعے ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
بہت شور سنتے تھے پہلومیں دل کا
آتش اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جن کی عظمت اور اہمیت سے انکار کوئی کٹر متعصب اور ناسخ کا شیدائی ہی کر سکتا ہے۔
موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n83167275