انتظار حسین کے افسانے
آخری آدمی
یہ جاتک کتھا اور تاریخی واقعات پر مبنی افسانہ ہے۔ سمندر کے کنارے ایک بستی ہے، اس بستی کے لوگ مچھلی کا شکار کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انھیں ایک خاص دن کو مچھلی پکڑنے سے منع کیا جاتا ہے، لیکن لوگ بات کو ان سنا کر مچھلی پکڑتے ہیں اور وہ بندر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بس ایک شخص بچتا ہے جو بندر نہ بننے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
زرد کتا
یہ ایک فنتاسی قسم کی روحانی کہانی ہے۔ اس میں مرشد و مرید کی گفتگو ہے۔ مرید اپنے مرشد شیخ عثمان کبوتر کے پاس آیا ہے۔ وہ املی کے درخت کے نیچے قیام کرتے ہیں اور پرندوں کی طرح اڑ سکتے ہیں۔ مرید اپنی ذہنی تجسس کے متعلق ان سے کئی سوال کرتا ہے اور مرشد ان سوالوں کے جواب میں اسے کئی ایسے واقعات سناتے ہیں جنھیں سن کر وہ ایک دوسری ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔
ہمسفر
یہ ایک علامتی کہانی ہے۔ ایک شخص جسے ماڈل ٹاون جانا ہے، بغیر کچھ سوچے سمجھے ایک چلتی بس میں سوار ہو جاتا ہے۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ یہ بس ماڈل ٹاون جائیگی بھی یا نہیں۔ وہ بس میں بیٹھا اپنے ساتھیوں کو یاد کر رہا ہوتا ہے جن کے ساتھ وہ پاکستان جانے والی ٹرین میں سوار ہوا تھا۔ ٹرین پاکستان آئی تھی لیکن سبھی ساتھی بچھڑ گئے تھے۔ بس میں سوار دیگر سواریوں کی طرح جو اپنی اپنی منزلوں پر اترتے رہے اور گلیوں میں گم ہو گئے۔
شہر افسوس
یہ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔ تین شخص جو مر کر بھی زندہ ہیں اور زندہ ہونے کے بعد بھی مرے ہوئے ہیں۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے اپنے ساتھ گزرے واقعات کو بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد زندہ کیوں ہیں اور اگر زندہ ہیں تو ان کا شمار مردوں میں کیوں ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ سوال کہ آخر یہ لوگ ہیں کون اور کہاں کے رہنے والے ہیں؟ یہ شہر افسوس کے باشندے ہیں، اپنی زمین سے اکھاڑے گئے ہیں اور اکھڑے ہوئے لوگوں کے لیے کہیں پناہ نہیں ہوتی۔
ہندوستان سے ایک خط
ملک کی آزادی نے صرف ملک کو تقسیم ہی نہیں کیا تھا بلکہ تباہی و بربادی بھی ساتھ لیکر آئی تھی۔ 'ہندوستان سے ایک خط' ایسے ہی ایک تباہ و برباد خاندان کی کہانی ہے، جو بھارت کی طرح (ہندوستان، پاکستان و بنگلہ دیش) خود بھی تین حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اسی خاندان کا ایک فرد پاکستان میں رہنے والے اپنے ایک عزیز کو یہ خط لکھتا ہے جو فقط خط نہیں، بلکہ ایک خاندان کے ٹوٹنے اور ٹوٹ کر بکھر جانے کی داستان ہے۔
قدامت پسند لڑکی
وہ چست قمیض پہنتی تھی اور اپنے آپ کو قدامت پسند بتاتی تھی۔ کرکٹ کھیلتے کھیلتے اذان کی آواز کان میں پہنچ جاتی تو دوڑتے دوڑتے رک جاتی، سرپہ آنچل ڈال لیتی اور اس وقت تک باؤلنگ نہیں کرتی جب تک اذان ختم نہ ہوجاتی۔ یہ اس لڑکی کا ذکر ہے جو مہاتما بدھ کی
کایا کلپ
شہزادہ آزاد بخت نے اس دن مکھی کی صورت میں صبح کی۔۔۔ اور وہ ظلم کی صبح تھی کہ جو ظاہر تھا چھپ گیا، اور جو چھپا ہوا تھا وہ ظاہر ہوگیا، تو وہ ایسی صبح تھی کہ جس کے پاس جو تھا وہ چھن گیا اور جو جیسا تھا ویسا نکل آیا۔ اور شہزادہ آزاد بخت مکھی بن گیا۔ شہزادہ
خواب اور تقدیر
ظلم و جبر سے تنگ آکر لوگ فرار و ہجرت کی راہ اختیار کرنے پر کیسے مجبور ہو جاتے ہیں، اس افسانے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ افسانے کے کردار قتل و جنگ سے تنگ آکر شہر کوفہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کرتے ہیں لیکن یہ سوچ کر کوچ نہیں کرتے کہ کہیں مدینہ بھی کوفہ نہ بن جائے۔ بالآخر شہر امن مکہ کی طرف کوچ کرتے ہیں رات بھی سفر کے بعد جب ان کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ کوفہ میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ واحد متکلم کہتا ہے مکہ ہمارا خواب ہے کوفہ ہماری تقدیر۔
وہ جو کھوئے گئے
زخمی سر والے آدمی نے درخت کے تنےسے اسی طرح سرٹکائے ہوئے آنکھیں کھولیں۔ پوچھا، ’’ہم نکل آئے ہیں؟‘‘ باریش آدمی نے اطمینان بھرے لہجہ میں کہا۔ ’’خدا کاشکر ہے ہم سلامت نکل آئے ہیں۔‘‘ اس آدمی نےجس کے گلے میں تھیلا پڑا تھا تائید میں سرہلایا، ’’بیشک، بیشک
کٹا ہوا ڈبہ
چند عمر رسیدہ افراد سفر سے متعلق اپنے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔ ان کی ذو معنی گفتگو سے ہی افسانے کے واقعات مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے آجکل سفر کے کوئی معنی نہ رہے، پہلے تو ایک سفر کرنے میں سلطنتیں بدل جایا کرتی تھیں، بچے جوان، جوان بوڑھے ہو جایا کرتے تھے، لیکن ٹرین کے سفر نے تو سب کچھ بدل ڈالا۔ اسی درمیان ایک کردار کو ٹرین سے متعلق واقعہ یاد آ جاتا ہے جس میں ٹرین کا ایک ڈبہ الگ ہو جاتا ہے جو استعارہ ہے اپنے ماضی اور ورثہ سے الگ ہو جانے کی۔
سیڑھیاں
یہ ایک ناسٹلجیائی کہانی ہے۔ گزرے ہوئے دنوں کی یادیں کرداروں کے لاشعور میں محفوظ ہیں جو خواب کی صورت میں انھیں نظر آتی ہیں۔ وہ خوابوں کی مختلف تعبیریں کرتے ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ ماضی کا ورثہ ہیں جن کی پرچھائیاں ان کا پیچھا کر رہی ہیں۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان خوابوں نے انھیں اپنی بازیافت کے عمل پر مجبور کر دیا ہے۔
بادل
وہ بادلوں کی تلاش میں دور تک گیا۔ گلی گلی گھومتا ہوا کچی کوئیا پہنچا۔ وہاں سے کچے رستے پر پڑلیا اور کھیت کھیت چلتا چلا گیا۔ مخالف سمت سےایک گھسیارا گھاس کی گٹھری سر پر رکھے چلا آرہا تھا۔ اسے اس نے روکا اور پوچھا کہ ’’ادھر بادل آئے تھے؟‘‘ ’’بادل؟‘‘
کشتی
عہد نامہ عتیق کے معروف قصے نوح کو بنیاد بنا کر لکھی گئی اس کہانی میں انسان کی من مانیوں کے نتائج کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ خدا کے بتائے ہوئے اصول سے روگردانی کی وجہ تباہی کی صورت دیکھنی پڑی۔ قصہ نوح اور ہندو دیو مالا کے امتزاج سے کہانی کی فضا بنائی گئی ہے۔
دہلیز
ادھوری محبت کی کہانی جس میں دو معصوم اپنے جذبات سے ناآشنا ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم کی طرح ہیں لیکن قسمت کی ستم ظریفی انھیں ازدواجی رشتے میں نہیں بندھنے دیتی ہے۔ ماضی کی یادیں لڑکی کو پریشان کرتی ہیں وہ اپنے بالوں میں چٹیلنا لگاتی ہے جو اسے بار بار اپنے بچپن کے ساتھی تبو کی یاد دلاتی ہیں جو اس کی چٹیلنا کھینچ دیا کرتا تھا۔ وہی چٹیلنا اب بھی اس کے پاس ہے لیکن وہ لگانا چھوڑ دیتی ہے۔
نرناری
یہ ایک علامتی کہانی ہے۔ مدن سندری کے بھائی اور پتی کے تن سے جدا سر مندر کے آنگن میں پڑے ہیں۔ مدن سندری دیوی سے وردان مانگتی ہے اور غفلت سے بھائی کا سر پتی کے دھڑ سے اور پتی کا سر بھائی کے دھڑ پر لگا دیتی ہے۔ رات کو بستر میں مدن سندری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ہاتھ جو اسکے جسم کا طواف کر رہے ہیں یہ اسکے پتی کے نہیں ہیں۔ اس کا پتی بار بار اسے سمجھاتا ہے کہ وہ ہی اس کا پتی ہے، لیکن مدن سندری کی دبدھا ختم نہیں ہوتی۔ اپنی اس دبدھا کے حل کے لیے وہ اپنے پتی کے ساتھ ایک رشی کے پاس جاتی ہے۔ رشی اس کی سمسیا کو سن کر کہتا ہے کہ ہر چیز کی پہچان اس کے مستک سے ہوتی ہے اور انسان کی بھی پہچان اسکے مستک سے ہے۔ دھڑ کے بدلنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا، تم لوگ صرف نر اور ناری ہو، جاؤ عیش کرو۔
مورنامہ
1998میں ہندوستان نے راجستھان کے پوکھرن میں ایٹم بم کا تجربہ کیا تھا۔ اس ایٹمی تجربے سے اس علاقے کے سارے مور ہلاک ہو گئے تھے۔ افسانہ نگار نے جب یہ خبر پڑھی تو انھیں بہت دکھ ہوا اور اس کہانی کی تخلیق عمل میں آئی۔ اس افسانے میں مصنف نے اپنے دکھ کا اظہار ہی نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے اس کہانی کا سرا جاتک کتھا اور اپنے بچپن کی یادوں سے ملایا ہے۔
ٹھنڈی آگ
مختار صاحب نے اخبار کی سرخیوں پر تو نظر ڈال لی تھی اور اب وہ اطمینان سے خبریں پڑھنے کی نیت باندھ رہے تھے کہ منی اندر سے بھاگی بھاگی آئی اور بڑی گرم جوشی سے اطلاع دی کہ ’’آپ کو امی اندر بلارہی ہیں۔‘‘ منی کی گرم جوشی بس اس کی ننھی سی ذات ہی تک محدود
وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے
یاجو ج ماجوج کے واقعہ کو بنیاد بنا کر انسانوں کی لالچ، عیاری اور مکاری کو بے نقاب کیا گیا ہے، یاجوج اور ماجوج روز دیوار چاٹتے ہیں، یہاں تک کہ وہ دیوار صرف ایک انڈے کے برابر رہ جاتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ کل اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے، وہ سو جاتے ہیں سو کر اٹھتے ہیں تو پھر دیوار پہلے کی طرح سالم ملتی ہے۔ ابھی دیوار ختم بھی نہیں ہوتی ہے کہ اس کے بعد حاصل ہونے والے فائدے کے لالچ میں یاجوج اور ماجوج کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی اولاد کو مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی نسلوں کو ختم کر ڈالتے ہیں اور دیوار جوں کی توں کھڑی رہتی ہے۔
آخری موم بتی
ہماری پھوپھی جان کو تو بڑھاپے نے ایسے آلیا جیسے قسمت کے ماروں کو بیٹھے بٹھائے مرض آدبوچتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بعض لوگ اچانک کیسے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ آندھی دھاندھی جوانی آتی ہے، بڑھاپا تو دھیرے دھیرے سنبھل کر آیا کرتا ہے۔ لیکن پھوپھی
شرم الحرم
’’مسٹر مصطفےٰ فائق تمہارا گھر کہاں تھا؟‘‘ مصطفےٰ فائق نے سامنے میز پر پڑے ہوئے نقشے کو سامنے سرکایا، انگلی رکھ کر کہا، ’’میرا گھر اس جگہ ہے۔‘‘ ’’یہ تو سرحد پر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا گھر تو گیا۔‘‘ مصطفےٰ فائق رکا، پھر دانت چبا کر
۳۱ مارچ
اس محبت کی مدت دس مہینے تیس دن ہے۔ یعنی یکم مئی ۵۸ء کو اس کا آغاز ہوا اور ۳۰مارچ ۵۹ء اس کا انجام ہوا۔ اصل میں اس کاانجام مارچ کی آخری تاریخ کو ہونا تھا۔ اس صورت میں حساب سیدھا ہوتا اور محبت کی مدت گیارہ مہینے ہوتی۔ گھپلا اس وجہ سے پیدا ہوا کہ حسن مارچ
کچھوے
اس افسانے میں کھچوے اور مرغابی کی کہانی کو بنیاد بنا کر موقع بے موقع بولنے والوں کے انجام کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ودیا ساگر بھکشووں کو جاتک کتھائیں سنا کر نصیحت کرتا ہے کہ جو بھکشو موقع بے موقع بولے گا، وہ گر پڑے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔ جس طرح کھچوا مرغابی کی چونچ سے نیچے گر گیا تھا اسی طرح کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔
اجنبی پرندے
شکل اس کی گھڑی گھڑی بدلتی کبھی روشن دان کی حد سےنکل کر تنکوں کا جھومر دیوار پر لٹکنے لگتا، کبھی اتنا باہر سرک آتا کہ آدھا روشن دان میں ہے، آدھا خلا میں معلق، کبھی اکا دکا تنکے کا سرکشی کرنا اور روشن دان سے نکل چھت کی طرف بلند ہوکر اپنےوجود کا اعلان
اندھی گلی
اندھی گلی دونوں نے یکبارگی پلٹ کر دیکھا۔ کہرہ بہت تھا، کچھ نظر نہیں آیا۔ پھر انھوں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ سنائی نہیں دیا۔ ’’یار کوئی نہیں ہے،‘‘ ایک نے دوسرے سے کہا اور پھر چل پڑے۔ مگر ابھی چار قدم چلے تھے کہ پھر ٹھٹھک گئے۔ ’’یار کوئی
انتظار
چند نوجوان کسی کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انتظار کرتے کرتے رات ہو گئی لیکن وہ شخص نہیں آیا یہاں تک کہ وہ سو گئے۔ پھر ان میں سے بعض کو شبہ ہوا کہ جب سب سو گئے تھے تو شاید وہ آیا تھا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ یہ تو انجیل کے دلہنوں والا قصہ ہو گیا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ انتظار کرانے والے اتنے ظالم کیوں ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ سگریٹ پی کر تاش کھیل کر وقت گزاری کی سوچتے ہیں لیکن یہ چیزیں میسر نہیں ہیں۔ پھر وہ سوچتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی داستان گو ہوتا۔ پھر مختلف نوعیت کی باتیں مذہب، سیاست وغیرہ پر ہونے لگتی ہیں۔ ایک شخص کہتا ہے کہ کہیں وہ سچ مچ نہ آجائے۔
پسماندگان
ہاشم خان اٹھایئس برس کا کڑیل جوان، لمبا تڑنگا، سرخ و سفید جسم آن کی آن میں چٹ پٹ ہو گیا۔ کمبخت مرض بھی آندھی و دھاندی آیا۔ صبح کو ہلکی حرارت تھی، شام ہوتے ہوتے بخار تیز ہو گیا۔ صبح جب ڈاکٹر آیا تو پتہ چلا کہ سرسام ہو گیا ہے۔ غریب ماں باپ نے اپنی سی
دوسرا گناہ
اس دن الیملک دستر خوان سے بھوکا اٹھا، اس نے زمران کے سامنے رکھی ہوئی روٹی پر نظر کی، پھر دسترخوان پر چنی ہوئی روٹیوں کو اور لوگوں کو دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا اور یہ وہ لوگ تھے جو دور کی زمین سے چل کر یہاں پہنچے تھے، ان کی زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی، انہوں
روپ نگر کی سواریاں
تانگے والا چھدا ہر روز گاوں سے سواریوں کو روپ نگر لے جاتا ہے۔ اس دن منشی رحمت علی کو روپ نگر تحصیل جانا ہوتا ہے، اسلیے وہ صبح ہی تانگے کے اڈے پر آجاتا ہے۔ تانگے میں منشی کے ساتھ دو سواریاں اور سوار ہو جاتی ہیں۔ تانگے میں سوار تینوں سواریاں اور کوچوان چھدا علاقے کے ماضی اور حال کے حالات کو بیان کرتے چلتے ہیں۔
پرچھائیں
شناخت کے بحران کی کہانی ہے۔ ایک شخص اپنے وجود کی تلاش میں غلطاں و پیچاں پھر رہا ہے لیکن اسے کوئی مناسب حل نہیں ملتا ہے۔ ایک شخص خود کو تلاش کرتا ہوا ایک عبادت خانے کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو بایزید پوچھتے ہیں کہ تو کون ہے؟ کس کی تلاش ہے؟ وہ بتاتا ہےکہ میں بایزید کو تلاش کر رہا ہوں۔ بایزید فرماتے ہیں کہ کون بایزید۔ میں تو خود اسی کی تلاش میں ہوں۔
ہڈیوں کا ڈھانچ
ایک سال شہر میں سخت قحط پڑا کہ حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی۔ پہلے چیل کوے کم ہوئے، پھر کتے بلیاں تھوڑی ہونے لگیں۔ کہتے ہیں کہ قحط پڑنے سے پہلے یہاں ایک شخص مرکر جی اٹھا تھا۔ وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس کے تصور میں سماگیا۔ اس نے اس تصور کو فراموش کرنے
احسان منزل
یہ افسانہ معاشرتی سطح پر قدیم سے جدید تک کا سفر کرنے، رہن سہن، عادات و اطوار، آداب و سلام کے طریقے میں تبدیلی پر مبنی ہے۔ احسان منزل میں رہنے والے افراد دقیانوسیت کی حد تک روایتی اقدار کے پابند تھے۔ بیٹے کی تعلیم علی گڑھ میں ہونے کی وجہ سے ان کی سوچ میں تھوڑی بہت لچک تو آئی لیکن ذہنیت تبدیل نہ ہوئی ۔ ماں نے جو پابندیاں محمودہ پر لگائی تھیں اسی طرح کی پابندیاں وہ اپنی بیٹی پر لگا رہی ہوتی ہیں۔
پتے
انسان کی جبلی خواہشات پر قدغن لگانے اور قابو نہ پانے کی کہانی ہے۔ جو جاتک کتھا اور ہندو دیو مالا کے حوالے سے تشکیل دی گئی ہے۔ سنجے بھکشا لینے اس مضبوط ارادے کے ساتھ جاتا ہے کہ وہ بھکشا دینے والی عورت کو نہیں دیکھے گا لیکن ایک دن اس کی نظر ایک عورت کے پیروں پہ پڑ جاتی ہے، وہ اس کے لیے بیاکل ہو جاتا ہے۔ اپنی پریشانی لے کر آنندہ کے پاس جاتا ہے وہ سندر سمندر کا قصہ، بندروں ، چاتر راجکماری کی جاتک کتھا سناتا ہے۔ سنجے تہیہ کرتا ہے کہ اب وہ بستی میں بھکشا لینے نہیں جائے گا لیکن کچھ وقت بعد اس کے قدم خود بخود بستی کی جانب اٹھنے لگتے ہیں۔ پھر وہ سب کچھ چھوڑ کر جنگل کی طرف ہو لیتا ہے لیکن وہاں بھی اسے شانتی نہیں ملتی ہے۔
وہ اور میں
تشکیک، بے یقینی اور کشمکش کا قصہ ایک کردار کے ذریعہ سامنے لایا گیا ہے۔ جو ریستوران میں بیٹھ کر ایک شخص پر پیچ و تاب کھاتا ہے، پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس آدمی پر انجانا سا شک تھا اس لیے اس پر غصہ آرہا ہے۔ جب بیرا بل لے کر آتا ہے تو حیرت سے پوچھتا ہے کہ یہ بل کس چیز کا ہے ۔ بیرا بتاتا ہے کہ کچھ دیر پہلے آپ سامنے کی میز پر تھے۔ وہ کشمکش کے عالم میں کہتا ہے کہ اچھا وہ میں ہی تھا۔
اپنی آگ کی طرف
میں نے اسے آگ کی روشنی میں پہچانا۔ قریب گیا۔ اسے ٹہوکا۔ اس نے مجھے دیکھا پھر جواب دیے بغیرے ٹکٹکی باندھ کر جلتی ہوئی بلڈنگ کو دیکھنے لگا۔ میں بھی چپ کھڑا دیکھتا رہا۔ مگر شعلوں کی تپش یہاں تک آرہی تھی۔ میں نے اسے گھسیٹا، کہا کہ چلو۔ اس نے مجھے بے تعلقی
یاں آگے درد تھا
اس افسانے میں اپنی جڑوں سے کٹ جانے اور تہذیب کے پامال ہو جانے کا نوحہ ہے۔ کالج میں آم کا ایک درخت ہے جس پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے حامی طلبا اپنا جھنڈا لگایا کرتے ہیں لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے درخت پر جھنڈے لگانے کی روایت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس پابندی نے وہ تمام نشانات مٹا دیے جو اس جگہ پر انجام پذیر ہوتے تھے، وہ جگہ ویران ہو گئی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس درخت کو کاٹ کر نئی عمارات تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
پچھتاوا
یہ افسانہ انسانی وجود کی بقا کے اسباب و علل پر مبنی ہے۔ مادھو پیدائش سے پہلے کوکھ میں ہی اپنی ماں کی دکھ بھری باتیں سن لیتا ہے، اس لیے وہ پیدا نہیں ہونا چاہتا۔ نو مہینے مکمل ہونے کے بعد عین وقت پر وہ پیدا ہونے سے انکار کرنے لگتا ہے۔ بہت سمجھانے بجھانے پر آمادہ ہوتا ہے۔ لیکن جوان ہونے کے بعد بیزاری کے عالم میں ساری دولت دان کر کے جنگل کی طرف نکل پڑتا ہے جہاں اسے زار و قطار روتی ہوئی ایک عورت ملتی ہے جس سے اس کے محبوب نے بے وفائی کی ہے۔ مادھو اس سے ہمدردی کرتا ہے لیکن موہ مایا میں پھنسنے کے خوف سے اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن کسی پل اسے سکون نہیں ملتا۔ مہاراج کے مشورے پر پھر اسے تلاش کرنے نکلتا ہے۔ گویا زندگی کا یہی مقصد ہے۔
دوسرا راستہ
ملک کے سیاسی حالات پر مبنی کہانی ہے۔ ایک شخص ڈبل ڈیکر کی بس کی بالائی منزل پر بیٹھا بس میں موجود لوگوں اور بس سے باہر کی تصاویر ایک کیمرہ مین کی طرح پیش کر رہا ہے۔ بس میں ایک کتبہ والا شخص ہے جس کے کتبے پر لکھا ہے ’’میرا نصب العین مسلمان حکومت کے پیچھے نماز پڑھنا ہے‘‘ پھر وہ شخص بس میں بیٹھے لوگوں کو مخاطب کر کے سیاسی حالات بیان کرنے لگتا ہے۔ اچانک ایک جلوس راستہ روک لیتا ہے۔ واحد متکلم اور اس کا دوست پریشان ہوتے ہیں کہ منزل تک پہنچ سکیں گے یا نہیں۔ افسانے میں پیش کردہ حالات تشکیک، بے چینی، بے یقینی اور تذبذف کی کیفیت کو واضح کرتے ہیں۔
مشکوک لوگ
ہوٹل میں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے افراد کسی خفیہ معاملے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایڈمنسٹریشن، ملکی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے پر ہی شک کرنے لگتے ہیں۔ان میں ایک شخص کو لگتا ہے کہ دوسرے شخص کی آنکھیں شیشے کی ہیں اسی طرح دھیرے دھیرے سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کی آنکھیں شیشے کی ہو گئی ہیں۔
مردہ راکھ
محرم کے موقع پر ادا کیے جانے والی مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے کہانی کے کردار اپنے ماضی میں کھو جاتے ہیں، وہ وقت جو انھوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں کے ساتھ گزارا ہے اور تحت الشعور میں پڑی ہوئی یادیں مجسم ہوکر سامنے آنے لگتی ہیں۔ علم، گھوڑے، تازیے نظروں کے سامنے سے گزرتے جاتے ہیں۔
لمبا قصہ
تشنہ محبت کی کہانی ہے، ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے اس کی ناکام محبت کا قصہ پوچھتا ہے لیکن کچھ بتانے سے قبل ہی ریستوران میں اور بھی کئی لوگ آجاتے ہیں۔ وہ دونوں اس معاملے کو کسی اور وقت کے لیے ٹال دیتے ہیں۔ پھر طالب علمی کے زمانے کی سیاسی نوک جھونک کی باتیں ہونے لگتی ہیں، وہ خاموش رہتا ہے۔ پھر جب دونوں کی ملاقات ہوتی ہے تو قصہ چھڑتا ہے لیکن وہ بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
محل والے
تقسیم ہند کے بعد صاحب ثروت طبقہ جو ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہوا تھا ان کے یہاں جائداد کی تقسیم کو لے کر پیدا ہونے والے مسئلہ کی عکاسی کی گئی ہے۔ محل والوں کی حالت تو تقسیم سے پہلے جج صاحب کی موت کے بعد ہی ابتر ہو چکی تھی لیکن تقسیم نے ان کے خاندان کی حالت مزید ابتر کردی۔ ہجرت نے ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا اور وہ سب متروکہ جائداد کے بدلے ملنے والی جائداد کی تقسیم کے لیے آپس میں الجھ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری کی ساری جائداد تقسیم ہو کر ختم ہو گئی اور سب کے اندر سے مروت بھی رخصت ہو گئی۔
بگڑی گھڑی
ماسٹر نیاز کی دوکان کے پاس ابو نجومی کی دوکان ہے۔ ماسٹر نیاز کے پاس لوگ گھڑی درست کرانے اور ابو نجومی کے پاس اپنی قسمت کا حال پوچھنے آتے ہیں۔ ماسٹر نیاز روشن خیال آدمی ہے، کہتا ہے کہ، اب ستارے انسان کی قسمت کے مختار نہیں رہے، انسان ستاروں کی قسمت کا مختار ہوگا۔ لیکن ابونجومی تردید کرتا ہے۔ آخر میں جب ماسٹر نیاز اپنی گھڑی درست کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو سوچتا ہے کہ واقعی انسان مجبور ہے۔ خود ابو نجومی کا بھی یہی المیہ ہے کہ وہ دوسروں کی قسمت سنوارنے کی تراکیب نکالتا ہے لیکن خود اپنی حالت بہتر کرنے سے قاصر ہے۔