کلیم عاجز کا تعارف
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم الدین احمد، قلمی نام ’’کلیم عاجز‘‘ شاعری کی دنیا میں ایک بڑا نام شمار کیا جاتاہے۔ ان کی پہچان بحیثیت شاعر ہی نہیں ایک مفکر اور ماہر تعلیم کے طور پر بھی ہوئی۔ پٹنہ سے متصل ضلع نالندہ جو قدیم بہار میں بدھشٹوں کا مامن و مسکن رہا، وہیں کے ایک گاؤں تلہرا میں ان کی پیدائش 1920 میں ہوئی۔ پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور ایم ے اردو کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہیں سے ڈاکٹریٹ کی امتیازی ڈگری سے بھی سرفراز ہوئے۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’بہار میں اردو ادب کا ارتقا‘‘ تھا، ان کی متعدد تصانیف اور شعری مجموعوں کے علاوہ وہ مقالہ بھی اب کتابی شکل میں موجود ہے۔ ڈاکٹریٹ کے بعد پٹنہ یونیورسٹی ہی میں بحیثیت استاد منتخب ہوئے۔ محض 17 سال کی عمر سے شاعری کرنے لگے اور شاعری کی دنیا میں انہیں میر ثانی کے طور پر جانا گیا۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ کلام 1976 میں سامنے آیا جس کا اجرا نئی دہلی کے وگیان بھون میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر فخرالدین علی احمد کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ غزلیہ اور نظمیہ دونوں ہی صنفوں میں انہیں کمال حاصل رہا، ان کا مجموعہ کلام ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ 1975 میں شائع ہوا، ’’جب فصل بہاراں آئی تھی‘‘ 1990 میں، ’’ابھی سن لو مجھ سے‘‘ 1992 میں اور ’’کوچہ جاناں جاناں‘‘ 2002 میں شائع ہوا۔ 60-70 کی دہائی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلع دہلی میں منعقد ہونے والے مشاعرہ میں بہار کی نمائندگی کے لئے انہیں ہر سال مدعو کیا جاتارہا۔ سبکدوشی کے بعد اردو ایڈوائزری کمیٹی آف بہار کے چیئرمین رہے۔
کلیم عاجز نثر نگاری پر بھی خاصہ دسترس رکھتے تھے۔ ’’مجلس ادب‘‘ تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب کے علاوہ تحقیقی مقالوں کا مجموعہ ’’دفتر گم گشتہ‘‘ ایک سفر نامہ جو سفر حج کے بعد انہوں نے ’’یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ‘‘ 1981 میں تحریر کیا، دوسرا سفر نامہ امریکہ ’’ایک دیش ایک بدیسی‘‘ بالترتیب 1978 اور 1979میں شائع ہوا۔ غزلوں، نظموں اور رباعیات پر مبنی ایک کتاب جسے ڈاکٹر وسیم احمد نے مرتب کیا ہے، 2008 میں منظر عام آیا۔ پدم سری کے علاوہ متعدد اعزازات سے سرفراز ہوئے، ان کی وفات 14 فروری 2015 میں ہوئی۔ جنازے کی نماز پٹنہ کے گاندھی میں ہوئی اور آبائی وطن تلہرا میں مدفون ہوئے۔