محور سرسوی کے اشعار
اک ہاتھ میں میرے چائے کا کپ اک ہاتھ میں میرے ہاتھ ترا
ہاتھوں کو طلب ہے ہاتھوں کی اور دل کو طلب ہے ساتھ ترا
مسکراتا ہوں تو روتا ہے مرا زخم جگر
رونے لگتا ہوں تو ہونٹوں کو چبھن ہوتی ہے
الفت تو دیکھیے مری دیدار کے سبب
درویش بن کے یار کی چوکھٹ پہ آ گیا
زوال یہ ہے کہ ہم زندگی سے ہار گئے
کمال یہ ہے کہ ہم زندگی گزار گئے
ہے مقدر میں زلیخا سے جدائی شاید
خواب میں مصر کے بازار نظر آتے ہیں
غربت نے چھین لیں میرے چہرے کی رونقیں
یوں تو کسی امیر سے کمتر نہیں ہوں میں
یقین جانئے تب جا کے پیار ہوتا ہے
کسی کے ذہن پے جب دل سوار ہوتا ہے
آپ نے عید مبارک تو کہا ہے لیکن
آپ نے عید منانے کی اجازت نہیں دی
سنا ہے تالیاں بجتی ہیں اس کی آمد پر
سنا ہے لوگ گھروں سے نکل کے دیکھتے ہیں
ہے مقدر میں زلیخا سے جدائی شاید
خواب میں مصر کے بازار نظر آتے ہیں
شیخ جی مسجد میں جاؤ میکدے کو چھوڑ دو
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
کچھ تو خیال کر مری عمر دراز کا
صدیاں گزر گئی ہیں ترے انتظار میں
ترک تعلقات پے راضی نہیں ہوں میں
یعنی تمہاری بات پے راضی نہیں ہوں میں
اس لیے خاک سے الفت ہے کہ خاک ہونا ہے
یہ روایت نہیں آیت ہے کہ خاک ہونا ہے