Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mahwar Sirsivi's Photo'

محور سرسوی

2002 | لکھنؤ, انڈیا

محور سرسوی کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

اک ہاتھ میں میرے چائے کا کپ اک ہاتھ میں میرے ہاتھ ترا

ہاتھوں کو طلب ہے ہاتھوں کی اور دل کو طلب ہے ساتھ ترا

مسکراتا ہوں تو روتا ہے مرا زخم جگر

رونے لگتا ہوں تو ہونٹوں کو چبھن ہوتی ہے

اپنے ہاتھوں کو چومتا ہوگا

تیری زلفیں سنوارنے والا

الفت تو دیکھیے مری دیدار کے سبب

درویش بن کے یار کی چوکھٹ پہ آ گیا

زوال یہ ہے کہ ہم زندگی سے ہار گئے

کمال یہ ہے کہ ہم زندگی گزار گئے

ایک مدت سے نیند طاری ہے

ایک مدت سے سو نہیں پائے

ہے مقدر میں زلیخا سے جدائی شاید

خواب میں مصر کے بازار نظر آتے ہیں

غربت نے چھین لیں میرے چہرے کی رونقیں

یوں تو کسی امیر سے کمتر نہیں ہوں میں

یقین جانئے تب جا کے پیار ہوتا ہے

کسی کے ذہن پے جب دل سوار ہوتا ہے

آپ نے عید مبارک تو کہا ہے لیکن

آپ نے عید منانے کی اجازت نہیں دی

سنا ہے تالیاں بجتی ہیں اس کی آمد پر

سنا ہے لوگ گھروں سے نکل کے دیکھتے ہیں

وقت کے پاؤں بھی نہیں محور

اور رفتار بھی غضب کی ہے

آج گر بولے نہیں حق بات پر

کل ستم ہوں گے تمہاری ذات پر

ہے مقدر میں زلیخا سے جدائی شاید

خواب میں مصر کے بازار نظر آتے ہیں

کوئے جاناں سے اپنی سانسوں پر

دل کی میت اٹھا کے لے آئے

نفرتوں کا علاج کرنا ہے

کچھ محبت عطا کرو جاناں

شیخ جی مسجد میں جاؤ میکدے کو چھوڑ دو

چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے

کچھ تو خیال کر مری عمر دراز کا

صدیاں گزر گئی ہیں ترے انتظار میں

ترک تعلقات پے راضی نہیں ہوں میں

یعنی تمہاری بات پے راضی نہیں ہوں میں

اس لیے خاک سے الفت ہے کہ خاک ہونا ہے

یہ روایت نہیں آیت ہے کہ خاک ہونا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے