ملکہ نسیم کے اشعار
خواب ٹھہرے تھے تو آنکھیں بھیگنے سے بچ گئیں
ورنہ چہرے پر تو غم کی بارشوں کا عکس ہے
شدت تشنہ لبی آج کہاں لائی ہے
پیاس صحرا کی سمندر میں اتر آئی ہے
میں کسی اور کو دیکھوں بھی تو دیکھوں کیسے
اس کے خوابوں کی ان آنکھوں پہ نگہبانی ہے
وہ لڑکیاں کہ جو لگتی تھیں سادہ تحریریں
پڑھی گئیں تو انوکھی پہیلیاں نکلیں
ہر دور کا جو عکس ہے وہ آئنہ ہیں ہم
تخلیق کائنات کا اک سلسلہ ہیں ہم
عمر گزری اک نگاہ لطف کی امید میں
ہم کو اپنے حوصلوں کی یہ ادا اچھی لگی
کر گئیں موجیں شرارت جب بھی لکھا تیرا نام
ریت پر جتنی لکیریں تھیں وہ سب مل جل گئیں
ہم نے یہ سوچ کے چھیڑا تھا فسانہ گل کا
اس بہانے ہی ترے ذکر کا پہلو نکلے
نہ پڑھ لے کوئی تحریریں تمہارے زرد چہرے کی
در و دیوار گھر کے شوخ رنگوں سے سجا رکھنا
نظر میں یادوں کے منظر سمیٹ کر رکھنا
میں جیسا چھوڑ کے آئی ہوں ویسا گھر رکھنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ