منظر سہیل کے اشعار
لڑکا نہ کوئی پھر سے ہو برباد دہر میں
تجھ پر نہ جائیں بیٹیاں تیری خدا کرے
مری نگاہ کو گر تیری دید ہو جائے
قسم خدا کی مری عید عید ہو جائے
اک بار میں ہی تو مرا قصہ تمام کر
قسطوں میں کر رہا ہے بھلا قتل کیوں مجھے
مثل موسم جو بدلتے تو کوئی بات نہ تھی
تو نے تو بدلا ہے گرگٹ کی طرح رنگ اپنا
کچھ تو انصاف کر بنی آدم ہر نفی شے کو تو حقیر نہ جان
تیرگی روشنی سے پہلے تھی خار پھولوں سے پہلے آئے ہیں
ضروری تو نہیں یہ کہ ہلیں لب
یہ خاموشی بھی تو اک گفتگو ہے
رنج و غم اور الم و درد کا لشکر نکلے
عشق تو تب ہے جب آنکھوں سے سمندر نکلے
بڑا ہی فرق ہے اے یار ہم دونوں کے جذبوں میں
تمہیں مجھ سے محبت تھی مجھے تم سے محبت ہے
ہونے دو اگر ہو گئے کچھ لوگ برے بھی
گلشن میں اگر پھول ہیں تو خار بھی ہوں گے
اک ہی لمحے میں سمجھ آتی نہیں کوئی کتاب
عمر لگتی ہے کسی شخص کو پہچاننے میں
کہ جس چراغ کو روشن کیا تھا میں نے کبھی
وہی چراغ مرا گھر جلانے آیا ہے
کیوں حیا خود پہ رو رہی ہے سہیلؔ
کیا کسی بے حیا کو دیکھا ہے
اک عمر ہو گئی ہے اسے چاہتے ہوئے
اک عمر سے یہ بار گراں ڈھو رہے ہیں ہم
جب وہ ہیں برے تو پھر اچھائی کریں گے کیوں
خوشبو کی تمنا تم کیوں کرتے ہو خاروں سے
راہوں کے پتھروں کا بھلا کیا گلہ کروں
اب آدمی کے دل بھی تو پتھر کے ہو گئے
نظر ہیں آئی بڑے عرصے باد آج مجھے
وہ آیتیں کہ جو منسوخ ہو گئی تھیں کبھی