میر محمد سلطان عاقل کے اشعار
پیچیدگئ طبع کی یہ صاف ہے دلیل
معنی الجھ کے رہ گئے ان کے کلام میں
پھیکی ہے تیری نصیحت ساتھ میرے غل مچا
شور سے ناصح نمک آ جائے گا تقریر میں
الٰہی تو بھی پیارا بت بھی پیارا پھر سنوں کس کی
ادھر کچھ شیخ کہتا ہے اور اس جانب برہمن بھی
شب وصال میں ہے ہے وہ ان کا شرما کر
دبی زبان سے کہنا کہ آرزو کیا ہے
اصل میں جلوہ یہ کس کا ہے تو ہی کہہ واعظ
تیرا رب اور سہی میرا صنم اور سہی
گالیاں دیں اس نے بے گنتی ہمیں
ہم نے بوسے بھی تو گن گن کے لیے