مرزا علی لطف کے اشعار
یہی تو کفر ہے یاران بے خودی کے حضور
جو کفر و دیں کا مرے یار امتیاز رہا
بیٹھ کر مسجد میں رندوں سے نہ اتنا بگڑیے
شیخ جی آتے ہو میخانے کے بھی اکثر طرف
پاکیٔ دامان گل کی کھا نہ اے بلبل قسم
رات بھر سرشار کیفیت میں شبنم سے رہا
کیا سبب بتلائیں ہنستے ہنستے باہم رک گئے
خود بخود کچھ وہ کھینچے ایدھر ادھر ہم رک گئے
دیر تک ضبط سخن کل اس میں اور ہم میں رہا
بول اٹھے گھبرا کے جب آخر کے تئیں دم رک گئے
بیگانوں نے کبھی نہ وہ کانوں سنائی بات
افسوس آشنا نے جو آنکھوں دکھائی بات
ادھر سے جتنی یگانگت کی ادھر سے اتنی ہوئی جدائی
بڑھائی تھوڑی سی جب ادھر سے بہت سی تم نے ادھر گھٹائی
ہم اور فرہاد بحر عشق میں باہم ہی کودے تھے
جو اس کے سر سے گزرا آب میری تا کمر آیا
آج کیا جانے وہ کیوں آرام جاں آیا نہیں
حرف رنجش کل تو کوئی درمیاں آیا نہیں
کھل گیا اب یہ کہ وصل اس کا خیال خام ہے
آج امیدوں کا دل ہی دل میں قتل عام ہے
نہ کر اے لطفؔ ناحق رہروان دیر سے حجت
یہی رستہ تو کھا کر پھیر ہے کعبہ کو جا نکلا
ہوا آوارہ ہندوستاں سے لطفؔ آگے خدا جانے
دکن کے سانولوں نے مارا یا انگلن کے گوروں نے
کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
خم مرے منہ سے لگا دو جو سبو ٹوٹ گیا
نہیں وہ ہم کہ کہنے سے ترے ہر بت کے بندے ہوں
کرے پیدا بھی گر ناصح تو اس غارت گر دیں سا
یاد نے ان تنگ کوچوں کی فضا صحرا کی دیکھ
ہر قدم پر جان ماری ہے دل ناکام کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ