Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Shauq Lakhnavi's Photo'

مرزا شوقؔ  لکھنوی

1773 - 1871 | لکھنؤ, انڈیا

شہرہ آفاق عشقیہ مثنوی "زہر عشق " کے لیے معروف

شہرہ آفاق عشقیہ مثنوی "زہر عشق " کے لیے معروف

مرزا شوقؔ  لکھنوی کے اشعار

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

گیسو رخ پر ہوا سے ہلتے ہیں

چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں

تشریح

اس شعر میں ’’دونوں وقت ملتے ہیں‘‘ سے شاعر نے ندرت کا پہلو نکالا ہے۔ پورا شعر ایک حرکی پیکر ہے۔ گیسو کا ’ہوا سے رخ پر ہلنا‘ اور ’دونوں وقت کاملنا ‘ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ جب گیسو اوررخ کہا تو گویا بصری پیکر وجود میں آیا، اور جب دونوں وقت ملنا کہا تو اس سے جو جھٹپٹے کا منظر بن گیا اس سے بھی بصری پیکر بن گیا۔

شعر میں جو کیفیت والی بات ہے وہ گیسو کے ہوا سے رخ پر ڈھلنے اور ان دونوں عوامل کے نتیجے میں دو وقت ملنے سے پیدا کردی گئی ہے۔ شاعر اپنے محبوب کے چہرے پر ہوا سے گیسو ہلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جب ہوا سے محبوب کے رخِ تاباں پر زلفیں ہلتی ہیں تو شاعر کچھ لمحوں کے لئے روشنی اور کچھ کے لئے اندھیرے کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس منظر کو وہ جھٹپٹے سے تشبیہ دیتا ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر نکتے والی بات ہے وہ ہے’’چلیے اب‘‘ ۔ یعنی عام آدمی شام کے وقت اپنے گھر چلا جاتا ہے اسی بنا پر شاعر کہتا ہے کہ چونکہ محبوب کے چہرے پر جھٹپٹے کا منظر دکھائی دیتا ہے اس لئے اب چلا جانا چاہیے۔

شفق سوپوری

دیکھ لو ہم کو آج جی بھر کے

کوئی آتا نہیں ہے پھر مر کے

چمن میں شب کو گھرا ابر نو بہار رہا

حضور آپ کا کیا کیا نہ انتظار رہا

ثابت یہ کر رہا ہوں کہ رحمت شناس ہوں

ہر قسم کا گناہ کیے جا رہا ہوں میں

گئے جو عیش کے دن میں شباب کیا کرتا

لگا کے جان کو اپنی عذاب کیا کرتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے