قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
نام میاں داد خاں، تخلص سیاح۔ ۳۰۔۱۸۲۹ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل وطن اورنگ آباد تھا، لیکن ان کے خاندان نے گردش روزگار کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑکر سورت میں سکونت اختیار کرلی۔یہ مرزا غالب کے دوست اور شاگرد تھے۔سیاحت کے بہت شوقین تھے۔ابتدامیں عشاق تخلص کرتے تھے ۔غالب نے ان کے شوق سفر کی مناسبت سے تخلص سیّاح رکھا۔سیاح نے پنجاب، بنگال، کشمیر، عرب اور دوسرے کئی ملکوں کی سیر کی تھی۔ عرصہ دراز تک سیاح نوٹ بناتے رہے ۔ ایک اسٹیشن پر انھوں نے ٹکٹ کے لیے سو روپے کا نوٹ بھنایا۔ ان کی بدقسمتی سے فوراً ہی دوسرا مسافر بھی اسی نمبر کا سو کا نوٹ لے کر ٹکٹ خرید نے آگیا۔تفتیش کے بعد ان پر مقدمہ چلا اور چودہ سال قید کی سزا ہوئی۔خوش قسمتی سے جیلر ان کے علم وفضل کا قدر داں تھاچنانچہ قید خانے میں ممکنہ مراعات حاصل ہوگئیں۔ ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی کے موقع پرمدحیہ قصیدہ بھجوایا جس کے صلے میں اسیری کی مدت میں کئی سال کی تخفیف ہوگئی۔رہائی کے بعد سیّاح نے سیاحت ترک کردی۔ بقیہ زندگی سورت میں بہت سخت گزری۔ کہتے ہیں سیاح کا ایک دیوان کسی میر صاحب کی بکری کھاگئی۔ وفات ۱۹۰۷ء سورت۔ سیاح کی ایک تصنیف ’’سیر سیاح‘‘ ہے۔ یہ ان کا شمالی ہند کا سفر نامہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تصانیف ان سے منسوب ہیں۔
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n89263063