محمد ناظر علی ناظر کے اشعار
اسیران قفس پر ظلم تو صیاد کرتے ہیں
کہ ان کے پر کتر لیتے ہیں تب آزاد کرتے ہیں
خدا کی شان کہ ہم کو اٹھا کے محفل سے
رقیب بیٹھے ہیں زانو ترا دبائے ہوئے
کوچۂ یار میں جانے کی کبھی خو نہ گئی
ٹھوکریں کھا کے بھی سنبھلے نہ سنبھلنے والے
امنگوں پر ہے اب ان کی جوانی
خوش آئے کیوں نہ اترانا کسی کا
کوئی اس بت سا زمانہ میں نہیں
یوں تو دیکھے ہیں طرحدار بہت
شرر نالۂ بلبل سے لگی ان میں آگ
جو شجر باغ میں تھے پھولنے پھلنے والے
ہے یہ تاکید کہ ہم کو نہ ستائے کوئی
کیسے پھر ان کو کلیجے سے لگائے کوئی
پھڑک پھڑک کے قفس میں یہ کہتی تھی بلبل
کہ ذرہ ذرہ ہے گلشن کا آشنا میرا