محمد یوسف پاپا کے اشعار
جب بھی والد کی جفا یاد آئی
اپنے دادا کی خطا یاد آئی
دشمنوں کی دشمنی میرے لیے آسان تھی
خرچ آیا دوستوں کی میزبانی میں بہت
یہاں جتنے ہیں اپنے باپ کے ہیں
تمہارے باپ کا کوئی نہیں ہے
جل گیا کون میرے ہنسنے پر
''یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے''
زلف کے پیچ میں لٹکے ہوئے شاعر کا وجود
تھک چکا ہوگا اسے مل کے اتارو یارو
اپنے دم سے ہے زمانے میں گھٹالوں کا وجود
ہم جہاں ہوں گے گھٹالے ہی گھٹالے ہوں گے
کہا اٹھلا کے اس نے آئیے نا
یہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
جب ہوا کالے کا گورے سے ملاپ
مل گئیں تاریکیاں تنویر سے
جھوٹ ہے دل نہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں درمیاں سے اٹھتا ہے
مار لاتا ہے جوتیاں دو چار
''جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے''
دبانا شرط ہے بجتے ہیں سارے
کھلونا بے صدا کوئی نہیں ہے