منور رانا کے اقوال
میں نے غربت کے دنوں میں بھی بیوی کو ہمیشہ ایسے رکھا ہے جیسے مقدس کتابوں میں مور کے پر رکھے جاتے ہیں۔
شادی کے گھر میں سکون ڈھونڈنا ریلوے اسٹیشن پر اصلی منرل واٹر ڈھونڈنے کی طرح ہوتا ہے۔
ہم سب سرکس کے اس جوکر کا رول ادا کر رہے ہیں جو ہنسانے کے لیے روتا ہے اور رلانے کے لیے کھلکھلا کر ہنس دیتا ہے۔
اردو ہندوستانی نسل کی وہ لڑکی ہے جو اپنے سلونے حسن اور مٹھاس بھرے لہجے کی بدولت ساری دنیا میں محبوب و مقبول ہے۔
سچ پوچھیں تو شاعری وہ نہیں ہوتی جسے آپ مصرعوں میں قید کر لیتے ہیں۔ بلکہ اصل شاعری تو وہ ہوتی ہے جس کی خوشبو آپ کے کردار سے آتی ہے۔
پستی کی طرف جاتی ہوئی کسی بھی قوم کا پہلا قدم اپنی زبان کو روندنے کے لیے اٹھتا ہے۔
گاؤں میں کسی کو پانی پلانے سے پہلے مٹھائی نہیں تو کم از کم گڑ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ جب کہ شہروں میں پانی پچیس پیسے فی گلاس ملتا ہے۔ یہ فرق ہوتا ہے کنوئیں کے میٹھے پانی اور شہر کے پائپوں کے پانی میں۔
ڈاکٹر اور قصائی دونوں کاٹ پیٹ کرتے ہیں لیکن ایک زندگی بچانے کے لیے یہ سب کرتا ہے جبکہ دوسرا زندگی کو ختم کرنے کے لیے۔
مشقت کی روٹی میں سب سے زیادہ نشہ ہوتا ہے کیونکہ مشقت کی روٹی کے خمیر سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔
دنیا اگر صرف ڈاکٹروں کے کہنے پر چلنا شروع کردے تو ساری دنیا کے کاروبار ٹھپ پڑ جائیں۔
اسپتال کی لفٹ بھی اتنی سست رفتار ہوتی ہے کہ بجائے بجلی کے آکسیجن سے چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
آج بھی گاؤں میں ایک آدمی کی موت کو گاؤں کی موت سمجھا جاتا ہے۔ مرحوم کے ساتھ قبرستان تک سارا گاؤں جاتا ہے۔ لیکن شہر میں شریک غم ہونا دور کی بات ہے۔ کاندھا بھی اسی جنازے کو دیتے ہیں جس کے لواحقین سے دامے درمے کوئی فائدہ پہونچنے والا ہو۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ زبان وہی مستند اور مقبول ہوتی ہے جو حاکم کی ہوتی ہے۔ محکوم کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔
شادی والے گھر میں ہر شخص مصروف دکھائی دیتا ہے، جس کے پاس کچھ کام نہیں ہوتا وہ زیادہ ہی مصروف دکھائی دیتا ہے۔
شاعری کرنا کنوئیں میں نیکیاں پھینکنے جیسا عمل ہے۔ شاعری تو وہ امتحان ہے جس کا نتیجہ آتے آتے کئی نسلیں مر کھپ چکی ہوتی ہیں۔
زندگی آنکھوں میں خوابوں کی سنہری فصل اگائے تعبیروں کی بارش کی منتظر رہتی ہے اور ایک نہ ایک دن تھک جاتی ہے۔
آج تک ڈاکٹری وہ مقدس پیشہ ہے جس کے اعتبار کی چادر کے نیچے باپ اپنی بیٹی، بھائی اپنی جوان بہن کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ ہر چند کے اس پیشے میں بھی کچھ خراب لوگ آگیے ہیں مگر خراب لوگوں سے کیسے اور کہاں بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تو مسجد اور مندروں میں بھی منڈلاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی رشتے داریاں بھی ریشم کی الجھی ڈور کی طرح ہوتی ہیں۔ سلجھانے سے اور زیادہ الجھنے کا خطرہ رہتا ہے۔
مشاعرہ کبھی ادب کی ترسیل اور نوعمروں کی ذہنی تربیت کی جگہ تھا۔ لیکن اب صرف جذبات بھڑکانے کی جگہ ہے۔
سائنس اپنے وجود کی آہٹ کو صور اسرافیل ثابت کرنے کے لیے چاند پر چرخا کاتتی ہوئی بڑھیا کے پاس پہنچ گئی لیکن زندگی روز شکرے کے پنجے میں دبی گوریا کی طرح پھڑپھڑا کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔
عظیم ہندوستان وہ آئینہ خانہ ہے جس میں دنیا کی مہذب قومیں اپنا سراپا دیکھ سکتی ہیں۔
اردو تنقید کا سب سے بڑ مسئلہ یہی رہا ہے کہ جس پر لکھا جانا چاہیے تھا اس پر نہیں لکھا جا رہا ہے اور جس پر لکھا جا رہا ہے وہ لکھے جانے کے لائق نہیں۔
اردو والوں نے تخلیق سے زیادہ تنقیدی کھسر پسر میں اپنا قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔
اردو ہندوستانی تہذیب کی وہ چادر ہے جس کے چاروں کونوں کو اس کے نام نہاد محافظ اپنی خود غرضیوں کے دانتوں سے کتر رہے ہیں۔
اردو ادب میں پیدا ہونے والے تقریباً سبھی خود ساختہ خداؤں سے مجھے اختلاف ہی نہیں بلکہ نفرت بھی رہی ہے۔
انٹرنیٹ کی مدد سے انگریزی ادب کے دوچار بے ربط لیکن بھاری بھرکم جملوں کا ترجمہ کرکے اردو ادب میں فرضی رعب گھانٹھنے والے فارمی انڈوں کی طرح اتنے ناقد پیدا ہو رہے ہیں کہ تنقید سے ادب کو فائدے کا امکان ہی ختم ہو گیا ہے۔
آج پورے برصغیر میں اردو کے اتنے وفادار بھی نہیں ملیں گے جتنے جاں نثاروں کی ضرورت دوران جنگ ایک آدھ سرحدی چوکی کے لیے پڑتی ہے۔
اردو کو ہر زمانے میں لشکری زبان کے خطاب سے نوازا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ اس کی ترویج و ترقی کے لیے جنگی پیمانے پر کبھی کام نہیں ہوا۔ غالباً اس کی وجہ یہی رہی ہوگی کہ اس لشکر کی کمان ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو یا تو خود بیساکھی لے کر چلتے رہے ہوں یا انہیں ایسے وقت میں کمان داری سونپی گئی جب ان کی کمر خود ضعیفی، بیماری اور احساس کمتری کا شکار ہو چکی تھی۔
اردو مشاعروں کی حویلی دیکھتے دیکھتے ہی کیسی ویران ہوتی جا رہی ہے۔ حویلی کی منڈیروں پر رکھے ہوئے چراغ ایک ایک کرکے بجھتے جارہے ہیں۔ ایوان ادب کی طرف لے جاتی ہوئی سب سے خوبصورت، پروقار اور پرکشش پگڈنڈی کتنی سنسان ہو چکی ہے۔ خدا کرے کسی بھی زبان پر یہ برا وقت نہ آئے، کوئی کنبہ ایسے نہ بکھرے، کسی خاندان کا اتنی تیزی سے صفایا نہ ہو، کسی قبیلے کی یہ دردشا نہ ہو۔ ابھی کل کی بات ہے کہ مشاعرے کا اسٹیج کسی بھرے پرے دیہات کی چوپال جیسا تھا، اسٹیج پر رونق افروز محترم شعرا کسی دیومالائی کردار معلوم ہوتے تھے۔ ان زندہ کرداروں کی موجودگی میں تہذیب اس طرح پھلتی پھولتی تھی جیسے برسات کے دنوں میں عشقِ پیچاں اونچی اونچی دیواروں کا سفر طے کرتا ہے۔