منیر جعفری کے اشعار
مجھ کو فقط شجر کی نمو سے ہے واسطہ
صحرا کو سایہ دار نہیں کر رہا ہوں میں
آواز کو غبار نہیں کر رہا ہوں میں
ماحول داغدار نہیں کر رہا ہوں میں
دریا سے تو معاہدہ طے پا گیا مگر
کشتی کا اعتبار نہیں کر رہا ہوں میں
آواز کو غبار نہیں کر رہا ہوں میں
ماحول داغدار نہیں کر رہا ہوں میں
دل پر پہن لیا ہے وہ گجرے کے جیسا شخص
لیکن گلے کا ہار نہیں کر رہا ہوں میں
دل پر پہن لیا ہے وہ گجرے کے جیسا شخص
لیکن گلے کا ہار نہیں کر رہا ہوں میں
مجھ کو فقط شجر کی نمو سے ہے واسطہ
صحرا کو سایہ دار نہیں کر رہا ہوں
یہ وقت کیفیات سے بھرتا نہیں کبھی
یہ جام اختیار نہیں کر رہا ہوں میں
یہ چل چلاؤ میں نے دیا ہے اسے منیرؔ
دنیا پہ انحصار نہیں کر رہا ہوں میں
یہ وقت کیفیات سے بھرتا نہیں کبھی
یہ جام اختیار نہیں کر رہا ہوں میں
یہ چل چلاؤ میں نے دیا ہے اسے منیرؔ
دنیا پہ انحصار نہیں کر رہا ہوں میں
محو سفر ہوں خطۂ دنیا کے اس طرف
اور خود کو ہوشیار نہیں کر رہا ہوں میں
دریا سے تو معاہدہ طے پا گیا مگر
کشتی کا اعتبار نہیں کر رہا ہوں میں
محو سفر ہوں خطۂ دنیا کے اس طرف
اور خود کو ہوشیار نہیں کر رہا ہوں میں