عبید الرحمان کے اشعار
نظر میں دور تلک رہ گزر ضروری ہے
کسی بھی سمت ہو لیکن سفر ضروری ہے
تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں
-
موضوع : مزدور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنی ہی ذات کے محبس میں سمانے سے اٹھا
درد احساس کا سینے میں دبانے سے اٹھا
آنگن آنگن خون کے چھینٹے چہرہ چہرہ بے چہرہ
کس کس گھر کا ذکر کروں میں کس کس کے صدمات لکھوں
بچوں کو ہم نہ ایک کھلونا بھی دے سکے
غم اور بڑھ گیا ہے جو تہوار آئے ہیں
جب دھوپ سر پہ تھی تو اکیلا تھا میں عبیدؔ
اب چھاؤں آ گئی ہے تو سب یار آئے ہیں
یہی اک سانحہ کچھ کم نہیں ہے
ہمارا غم تمہارا غم نہیں ہے
شوخی کسی میں ہے نہ شرارت ہے اب عبیدؔ
بچے ہمارے دور کے سنجیدہ ہو گئے
کوئی دماغ سے کوئی شریر سے ہارا
میں اپنے ہاتھ کی اندھی لکیر سے ہارا
صحبت میں جاہلوں کی گزارے تھے چند روز
پھر یہ ہوا میں واقف آداب ہو گیا
ٹوٹتا رہتا ہے مجھ میں خود مرا اپنا وجود
میرے اندر کوئی مجھ سے برسر پیکار ہے
جہاں پہنچنے کی خواہش میں عمر بیت گئی
وہیں پہنچ کے حیات اک خیال خام ہوئی
گھٹتی بڑھتی رہی پرچھائیں مری خود مجھ سے
لاکھ چاہا کہ مرے قد کے برابر اترے
دکھاؤ صورت تازہ بیان سے پہلے
کہانی اور ہے کچھ داستان سے پہلے
ہمیں تو خواب کا اک شہر آنکھوں میں بسانا تھا
اور اس کے بعد مر جانے کا سپنا دیکھ لینا تھا