پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی کے اشعار
دوزخ و جنت ہیں اب میری نظر کے سامنے
گھر رقیبوں نے بنایا اس کے گھر کے سامنے
سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص
یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا
-
موضوع : سچ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
بتوں کی گلی چھوڑ کر کون جائے
یہیں سے ہے کعبہ کو سجدہ ہمارا
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے
جنوں کی چاک زنی نے اثر کیا واں بھی
جو خط میں حال لکھا تھا وہ خط کا حال ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب ملے دو دل مخل پھر کون ہے
بیٹھ جاؤ خود حیا اٹھ جائے گی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
کیا یہ دنیا عاقبت بخشوائے گی
کوچۂ جاناں کی ملتی تھی نہ راہ
بند کیں آنکھیں تو رستہ کھل گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مکان سینہ کا پاتا ہوں دم بدم خالی
نظر بچا کے تو اے دل کدھر کو جاتا ہے
جو دن کو نکلو تو خورشید گرد سر گھومے
چلو جو شب کو تو قدموں پہ ماہتاب گرے
چلا دختر رز کو لے کر جو ساقی
فرشتہ ہوئے ساتھ گھر دیکھنے کو
معنیٔ روشن جو ہوں تو سو سے بہتر ایک شعر
مطلع خورشید کافی ہے پئے دیوان صبح
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تھا سم پہ یہ اس پری کا نقشہ
سب آنکھ ملا کہتے تھے آ
تشریح
سم ہندوستانی موسیقی کی اصطلاح ہے۔ اس کا تعلق تال سے ہے۔ تال کہتے ہیں موسیقی کے وزن کو۔ جس طرح ہمارا عروضی نظام ارکان پر مبنی ہے اسی طرح ہندوستانی موسیقی میں تال کا نظام ماتراؤں پر مبنی ہے۔ جیسے دھا گے نا تی نا کے دھن نا(آٹھ ماترائیں: کہروا تال)۔ سم اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں تال کا آغاز ہوتا ہے۔ تال کی پہلی ماترا سم کہلاتی ہے۔ ہر تال چکر میں ایک ہی بار سم آتا ہے۔ سنگیت میں خاص زور دے کر سم کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر گانے کا اختتام سم پر ہی ہوتا ہے۔ تال کی زبان میں سم کی جگہوں پر ضرب کا نشان لگایا جاتا ہے۔
نسیم کے شعر میں لفظ‘‘آ’’ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ عام طور ہر جب موسیقی میں تال بجتی ہے تو خالی پر مغنی اپنی گردن اٹھاتا ہے اور سم پر فوراً نیچی کرتا ہے۔ اس عمل سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کرتا ہے۔ سکھڑ سننے والے مغنی کی اس حرکت کی تقلید کرتے ہیں۔ اسی نکتے سے نسیمؔ نے اتنا لطیف مضمون باندھا ہے۔ نظم طباطبائی کا یہ شعر یاد آرہا ہے؎
مطرب سے پوچھ مسئلۂ جبرواختیار
کیا تال سم پہ اٹھتے ہیں بے اختیار ہاتھ
شفق سوپوری
صبح دم غائب ہوئے انجمؔ تو ثابت ہو گیا
خندۂ بیہودہ پر توڑے گئے دندان صبح
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ