قاسم علی خان آفریدی کے اشعار
لب شیریں سے اگر ہو نہ تیرا لب شیریں
کوہ کن تو بھی تو اب دامن کہسار نہ چھوڑ
مجھے خوشی کہ گرفتار میں ہوا تیرا
تو شاد ہو کہ ہے ایسا شکار اسیر مرا
شیخ مجھ کو نہ ڈرا اپنی مسلمانی تھام
ہم فقیروں کا کسی رنگ سے ایمان نہ جائے
بس نہیں چلتا ہے ورنہ اپنے مر جانے کے ساتھ
پھینک دیتے کھود کر دنیا کی سب بنیاد ہم
ہے جدا سجدہ کی جا ہندو مسلماں کی مگر
فہم والوں کے تئیں دیر و حرم دونوں ایک
کام ہے مطلب سے چاہے کفر ہووے یا کہ دیں
جا پہنچنا ہے کسی صورت سے اپنے یار تک
ناصحا وعظ جو کہتا تھا تجھے بن دیکھے
دیکھتے ہی تجھے پھر جان کو کھوتے دیکھا
شراب ساقیٔ کوثر سے لیجو آفریدیؔ
یہ بادہ نوشئ دنیا ہے تجھ کو ننگ شراب
نرگسی چشم دکھا کر کے وہ وحشت زدہ یار
یہ گیا وہ گیا جس طرح غزال آپ سے آپ
یار کا کوچہ ہے مسجود خلایق دیکھ لے
سنگ ہے کعبہ میں مورت دیر میں ہے مشترک
خدا کو سجدہ کر کے مبتذل زاہد ہوا اب تو
تو جا کر مہ جبیں کے آستاں پہ جبہ سائی کر
مارا جاوے گا بھاگ اے ناصح
دیکھ یہ نازنیں سوار آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عجب طرح کی ہے دنیا برنگ بو قلموں
کہ ہے ہر ایک جداگانہ الاماں تنہا
عشق ہے اے دل کٹھن کچھ خانۂ خالہ نہیں
رکھ دلیرانہ قدم تا تجھ کو ہو امداد داد