ریاست علی اسرار کے اشعار
کیا اس سے بچھڑتے کہ ملے ہی نہ تھے جس سے
اک طرفہ محبت کے بھی ہیں زاویے کیا کیا
ہم نہ آئے جنوں کے بس میں کبھی
یہ گریباں خرد نے چاک کیا
کون آئینہ دیکھتا ہے میاں
سب کو اپنا ہی عکس پیارا ہے
سانس کھینچیں تو مصرع اولیٰ
سانس چھیڑیں تو مصرع ثانی
ہمت کہاں سے لاؤں کہ تعبیر کر سکوں
کل رات خواب دیکھ رہا تھا کہ خوش ہوں میں
اپنی زنجیر پا کو دیکھتا ہوں
اس کی پازیب یاد آتی ہے
جانے خوابوں کا کیا ہوا ہوگا
ایک مدت سے ہم نہیں سوئے
کب ہوں آزاد اس محیط سے میں
سوچتا ہوں کہ سوچتا کیوں ہوں
مرجھائے ہوئے گل پر اک بوند ہے شبنم کی
تعبیر کی پلکوں پر اک خواب کا آنسو ہے
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے خوش ہونے پر
یہ بہار اب کے نہ تمہید خزاں ہو جائے
جلا چراغ عدم تو عجب اجالا ہوا
راہ وجود کی منزل دکھائی دینے لگی
کھنچی ہوئی تھی کوئی اور نام کی ریکھا
تمہارے ہاتھ پہ تقدیر نے لگائی حنا
طلسمی چشم نے تیری کیا مجھے منظور
اور اک گمان میں ڈالا کے کوئی خواب ہوں میں
بے کراں دشت تصور میں بھٹکنے کے نقوش
موج در موج سرابوں سے ابھرتے ہوں گے
ہم کو مٹی کے گھروندوں سے عجب نسبت ہے
اپنا آبائی مکاں گرتے ہوئے دیکھا تھا
کس طرح یاد کر رکھی ہے یہ بات
بھول جائیں گے ایک دن اسرارؔ
شعر گوئی ہے شغل عقل میاں
دل کا گویا کوئی کلام نہیں
عقل کچھ کام کی نہ تھی اسرارؔ
عشق نے اس کو ٹھیک ٹھاک کیا
وہ ایک حرف جو اس کے لبوں سے ہو گزرا
اس ایک حرف میں سارا سخن سمایا تھا
جلا ہے دشت تصور کہاں کہاں ٹپکا
تمہاری چشم غزالاں سے بوند بوند آنسو
بازار لفظ میں لئے کاسہ خیال کا
پھرتے ہیں ہم سخاوت معنی کے شوق میں
میں تجھ کو دست حقیقت سے چھو کے دیکھوں گا
تو ایک پیکر خواب و خیال ہے جاناں
اٹھتی چلی گئی ہے کوئی اور ہی صدا
اک آہ سرد تھی کہ دبی کہ دبی رہی
ہے پردۂ فلک میں یہ کیسا سیہ شگاف
دیکھو تو کوئی جھانک رہا ہے زمین کی اور