سعید احمد اختر کے اشعار
سلگ رہا ہے چمن میں بہار کا موسم
کسی حسین کو آواز دو خدا کے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پوچھتا کوئی نہیں پڑھتا مجھے ہر ایک ہے
جیسے منٹوؔ کا کوئی بدنام افسانہ ہوں میں
کل رات جس کو چاند سمجھتے رہے تھے ہم
کنگن اچھل گیا تھا کسی نازنین کا
سجدہ کہاں لگا ہے ہماری جبین کا
چرچا ہے پھر فلک پہ ترے در نشین کا
مدت سے خامشی ہے چلو آج مر چلیں
دو چار دن تو گھر میں ذرا انجمن رہے
مرے تو پھول بھی تم ہو صبا بھی خوشبو بھی
نہیں ہو تم تو نہیں میرے کام کا موسم
آپ حیراں کیوں ہیں میری آنکھ سے دیکھیں اسے
یہ مرے البم کی سب سے دل نشیں تصویر ہے
تمہارے بالوں سے گالوں سے کھیلتا موسم
میں دیکھتا ہی رہا اور گزر گیا موسم
میری وفا ہے میری زمیں سے جڑی ہوئی
پہلا سبق ہے میرا وطن میرے دین کا
آیا تھا سن کے شہر میں دولت کی ریل پیل
کل مل میں کٹ کے مر گیا بیٹا کسان کا
کتاب عشق لکھ رکھی ہے دل پر
مگر ڈرتا ہوں پھر بھی امتحاں سے
یہ مرا الہام ہے وہ مری تدبیر ہے
میں نہ جنوں کا اسیر میں نہ خرد کا غلام
کہ جیسے صحن گلستاں میں پیار کا موسم
کھلی جو آنکھ تمہاری تو کھل گیا موسم
یہ خوبی ہے کہ نا خوبی مگر میں
الگ چلتا ہوں اپنے کارواں سے
ایک ہم تینوں میں مر جائے تو چھپ جائے گی
لکھ تو رکھی ہے تری پریم کہانی میں نے
شباب تم سے کرے گا جو تم نے ہم سے کیا
تمہارا حسن بھی نکلے گا بے وفا موسم
کبھی اترا نہیں جو آسماں سے
وفا اترے گی اس دل پر کہاں سے
اس ڈر سے روک رکھے ہیں آنسو سعیدؔ نے
آنچل نہ بھیگ جائے کسی گل جبین کا
ہنسئے چراغ اجالیے پودے لگائیے
کچھ حوصلہ بڑھائیے بوڑھی زمین کا