Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Safar Naqvi's Photo'

سفر نقوی

1998 | دلی, انڈیا

نئی نسل کے نمائندہ شاعروں میں شامل، غزل کی ایک ابھرتی ہوئی آواز، شاعری میں عناصر کربلا کو ایک زندہ احساس کے طور پر پیش کرنے کے لیے مشہور

نئی نسل کے نمائندہ شاعروں میں شامل، غزل کی ایک ابھرتی ہوئی آواز، شاعری میں عناصر کربلا کو ایک زندہ احساس کے طور پر پیش کرنے کے لیے مشہور

سفر نقوی کا تعارف

پیدائش : 01 Jul 1998 | بریلی, اتر پردیش

سفر نقوی کی پیدائش 1 جولائی 1998 کو ضلع بریلی، اُتر پردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آبائی وطن سے حاصل کرنے کے بعد، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مِنٹو سرکل اسکول میں داخلہ لے لیا۔ بیچلرز (سائنس) اور ماسٹرز (اردو) کی ڈگریاں بھی مسلم یونیورسٹی ہی سے حاصل کیں۔ فی الحال دہلی یونیورسٹی میں اردو میں تحقیق کر رہے ہیں۔

سفر نقوی ایک ایسے شاعر ہیں جو اپنی غزلیات میں کربلا کے عناصر کو نہ صرف تاریخ کی سطح پر بلکہ ایک زندہ احساس کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کربلا کی تباہی، شہیدوں کا ماتم اور ان کی قربانی کا تذکرہ ان کی شاعری میں ایک گہرے فلسفے کے طور پر ابھرتا ہے، جو انسانی تجربے اور جذبات کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں کربلا کا تذکرہ ایک متحرک حقیقت کی مانند ہے، جو دنیا کے جبر کا مقابلہ کرنے کی نئی راہیں دکھاتی ہے۔

سفر نقوی کی شاعری زبان میں لطافت اور نفاست ہے، جو روایت کی پاسداری کرتی ہے، لیکن اسے ہم عصر تقاضوں کے مطابق نئے انداز میں پیش کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں اردو-فارسی کے خوبصورت الفاظ کی چمک، ان کی مترنمیت اور اثر پذیری ایک جادو کی مانند ہے، جو دلوں کو چھوتی ہے اور دماغ کے دروازوں کو کھول دیتی ہے۔ ان کی غزلیں صرف روایت کی چمک نہیں، بلکہ اسے نئی زندگی دینے کا ایک خوبصورت عمل ہیں۔

سفر نقوی کی شاعری میں زندگی، حسن، انسان اور خدا جیسے موضوعات ایک محنتی سفر کی طرح ہیں، جو فرد کے اندرونی مسائل کو بیرونی حقیقتوں سے جوڑتے ہیں۔ حسن کی بات کرتے ہوئے، وہ دنیا کی خوبصورتی اور اس کے درختوں کی چھاؤں میں چھپی ہوئی غم کی داستان بیان کرتے ہیں۔ انسان کی گمراہی اور اس کے اندھیروں میں بھٹکنے کی کیفیت سفر نقوی کی غزل میں ایک عجب دریا کی مانند ہے، جو ہر لمحہ کسی نئے سوال اور جواب کی طرف لے جاتا ہے۔

ان کی غزلیات میں زنجیر، گریہ، ماتم اور نوحہ کا بیان محض غم کی آواز نہیں بلکہ ایک لمحۂ فکر کی طرح ہے، جو انسان کو اس کے وجود کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ ان کی غزل میں نوحہ ایسا نہیں ہوتا جو صرف ماتم کی صورت ہو، بلکہ وہ ایک احتجاج ہے، جو انسان کو زندگی کی مشکلات اور اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

سفر نقوی اپنی غزل میں ذات اور کائنات کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے وہ دونوں ایک ہی کہانی کے دو پہلو ہوں۔ ان کے اشعار میں ذات کی گہرائی اور کائنات کا راز ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں، اور ایک نئے کائناتی منظر کی تخلیق کرتے ہیں۔ ان کی غزلیں نہ صرف کائنات کی حقیقتوں کو پیش کرتی ہیں، بلکہ انسان کی روحانی سفر کی جانب ایک اور قدم بڑھانے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔

سفر نقوی کی غزلیں ایک خوبصورت تجربے کی طرح ہیں، جو اردو شاعری کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں اور انسان کے وجود کی گہرائیوں میں جا کر اس کے اندر چھپے ہوئے سوالات اور جوابات کو ایک نئی روشنی میں پیش کرتی ہیں۔ ان کے الفاظ میں زندگی کی تکلیفوں اور خوشیوں کا تہہ دار تصور نظر آتا ہے، جو دل و دماغ میں گہرا اثر چھوڑ جاتا ہے۔

موضوعات

Recitation

بولیے