سیف عرفان کا تعارف
سیف عرفان کا تعلق ہندوستان کی تاریخی و علمی سرزمین، اعظم گڑھ (اتر پردیش) سے ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں اُن کی فکری آبیاری ہوئی اور شعری ذوق نے نشوونما پائی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اعظم گڑھ کے سنٹرل پبلک اسکول سے حاصل کی، جہاں بارہویں جماعت تک تعلیمی مدارج طے کیے۔ اعلیٰ تعلیم کے شوق نے انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک پہنچایا، جہاں شعبۂ نباتیات (بوٹنی) سے بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسی ادارے سے پلانٹ فزیالوجی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ فی الوقت، وہ علی گڑھ کالج آف ایجوکیشن میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اُن کے پسندیدہ شعرا میں ، مرزا غالب، میر تقی میر، امیر مینائی، احمد فراز، عرفان صدیقی، نون میم راشد، احمد ندیم قاسمی، محمد علوی٬ احمد مشتاق اور دیگر معاصر شعرا کے نام نمایاں ہیں۔
اعظم گڑھ کی ادبی فضا میں پروان چڑھنے والے سیف عرفان کی شاعری جہاں خیالوں کی نزاکت سے آراستہ ہے، وہیں ان کے اشعار بے ساختہ بہتے ہیں، جیسے کوئی پرندہ اپنی فطری لے میں گنگنا رہا ہو۔ نہ الفاظ کی پیچیدگی، نہ اظہار میں تصنع، مگر احساس کی تہہ داری اور مشاہدے کی تازگی ہر شعر میں جھلکتی ہے۔
سیف عرفان کی شاعری زندگی کے عام لمحوں، انسانوں کے درمیان بکھری ہوئی خاموش کہانیوں اور فطرت کے نازک جذبات کو ایسی سادگی سے بیان کرتی ہے جیسے کوئی اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر دور تک پھیلے کھیتوں کا احوال کہہ رہا ہو۔ یہی سچائی اور بے ساختگی ان کے اشعار کو عوامی دلچسپی کا مرکز بنا دیتی ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک منفرد تاثر اور ایسے سوالات ہیں جو ہر قاری کو اپنی ذات میں جھانکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔