سالک لکھنوی کے اشعار
ساحل پہ قید لاکھوں سفینوں کے واسطے
میری شکستہ ناؤ ہے طوفاں لیے ہوئے
جو تیری بزم سے اٹھا وہ اس طرح اٹھا
کسی کی آنکھ میں آنسو کسی کے دامن میں
منزل نہ ملی کشمکش اہل نظر میں
اس بھیڑ سے میں اپنی نظر لے کے چلا ہوں
اپنی خودداری سلامت دل کا عالم کچھ سہی
جس جگہ سے اٹھ چکے ہیں اس جگہ پھر جائیں کیا
یہ بھی اک رات کٹ ہی جائے گی
صبح فردا کی منتظر ہے نگاہ
کہی کسی سے نہ روداد زندگی میں نے
گزار دینے کی شے تھی گزار دی میں نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھینچ بھی لیجئے اچھا تو ہے تصویر جنوں
آپ کی بزم میں کیا جانئے کل ہوں کہ نہ ہوں
چاہا تھا ٹھوکروں میں گزر جائے زندگی
لوگوں نے سنگ راہ سمجھ کر ہٹا دیا
ناخدا ڈوبنے والوں کی طرف مڑ کے نہ دیکھ
نہ کریں گے نہ کناروں کی تمنا کی ہے
زنداں میں اچانک ہے یہ کیا شور سلاسل
یہ سالکؔ بے باک کا ماتم تو نہیں ہے
ستارے کی طرح سینے میں دل ڈوبا کیا لیکن
شب غم کے اندھیرے سے نہیں مانگی سحر ہم نے
یونہی انسانوں کے شہروں میں ملا اپنا وجود
کسی ویرانے میں اک پھول کھلا ہو جیسے
محو یوں ہو گئے الفاظ دعا وقت دعا
ہاتھ سے ظرف طلب چھوٹ گیا ہو جیسے
نگاہ مہر کہاں کی وہ برہمی بھی گئی
میں دوستی کو جو رویا تو دشمنی بھی گئی
مال و زر اہل دول سامنے یوں گنتے ہیں
ہم فقیروں نے نہ کچھ صرف کیا ہو جیسے
مے خانۂ ہستی میں ساقی ہم دونوں ہی مجرم ہیں شاید
خم تو نے بچا کے رکھے تھے پیمانے میں نے توڑے ہیں
نگاہ شوق سے لاکھوں بنا ڈالے ہیں در ہم نے
قفس میں بھی نہیں مانی شکست بال و پر ہم نے
بہار گلستاں ہم کو نہ پہچانے تعجب ہے
گلوں کے رخ پہ چھڑکا ہے بہت خون جگر ہم نے
نظر سے دیکھ تو ساقی اک آئینہ بنایا ہے
شکستہ شیشہ و ساغر کے ٹکڑے جوڑ کر ہم نے
آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
مٹ چکے جو بھی تھے توبہ شکنی کے اسباب
اب نہ مے خانہ نہ پیمانہ نہ شیشہ نہ سبو
دھواں دیتا ہے دامان محبت
ان آنکھوں سے کوئی آنسو گرا ہے