ثمرؔ بدایونی کا اصل نام محمد جلیل الدین ہے اور جنہیں اردو ادب کے افق پر ایک باکمال شاعر کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 21 جون 1963 کو ضلع بدایوں، اتر پردیش کے ایک شیخ صدیقی زمیندار خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد مرحوم جمیل الدین صدیقی نہ صرف محکمۂ تعلیم کے ایک سرکاری ملازم تھے بلکہ بدایوں کے ادبی حلقے میں ایک ممتاز شاعر اور ادیب کے طور پر بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔
ثمرؔ بدایونی کا شعری سفر بچپن ہی سے کتابوں کی محبت اور علمی ماحول میں پروان چڑھا۔ ہائی اسکول کے دوران ہی انہوں نے شعر کہنے کی ابتدا کی، لیکن والد کی سخت مزاجی کے باعث یہ شوق کئی برسوں تک چھپا رہا۔ بعد میں جب ان کے والد نے ان کی شاعری کو پہچانا تو وہ نہ صرف حیرت زدہ ہوئے بلکہ ان کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھایا۔ بدقسمتی سے، والد کی رہنمائی زیادہ عرصے تک میسر نہ رہ سکی، اور 2004 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
اس کے بعد ثمرؔ بدایونی نے بدایوں کے معروف شاعر نفیسؔ بدایونی کی شاگردی اختیار کی اور دس برس تک ان سے کسبِ فیض کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد بھی نفیسؔ صاحب کا روحانی اثر ان کی شاعری پر برقرار رہا۔
ثمرؔ بدایونی کی تخلیقات 2007 سے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہونا شروع ہوئیں، اور 2010 میں آکاش وانی ریڈیو اور دوردرشن کے ذریعے ان کے کلام کی نشریات کا آغاز ہوا۔ خالدؔ ندیم بدایونی جیسے استاد اور ہمدرد شخصیت کی حوصلہ افزائی نے انہیں مشاعروں، ریڈیو، اور ٹیلی ویژن کے ذریعے مزید نمایاں ہونے کا موقع فراہم کیا۔
ان کی شاعری وراثتی موزونیت اور تربیت یافتہ تخلیقی صلاحیتوں کا حسین امتزاج ہے، جس نے انہیں اردو ادب میں ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے۔