ثناء اللہ ظہیر کے اشعار
میں دے رہا ہوں تجھے خود سے اختلاف کا حق
یہ اختلاف کا حق ہے مخالفت کا نہیں
اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں
میرا یہ دکھ کہ میں سکہ ہوں گئے وقتوں کا
تیرا ہو کر بھی ترے کام نہیں آ سکتا
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ترے مکاں کا تقدس عزیز تھا اتنا
میں آ رہا ہوں گلی سے پرے اتار کے پاؤں
خلا میں تیرتے پھرتے ہیں ہاتھ پکڑے ہوئے
زمیں کی ایک صدی ایک سال سورج کا
اپنی مستی کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں