شفیق الرحمان کے طنز و مزاح
ہماری فلمیں
ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں۔ جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری فلموں نے اتنے تھوڑے سے عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چند ہی سال کی بات
مکان کی تلاش میں
مکان کی تلاش۔۔۔ ایک اچھے اور دل پسند مکان کی تلاش۔۔۔ دنیا کے مشکل ترین امور میں سے ہے۔ تلاش کرنے والے کا کیا کیا جی نہیں چاہتا۔ مکان حسین ہو۔ جاذب نظر ہو۔ آس پاس کا ماحول روح پرور اور خوشگوار ہو۔ سنیما بالکل نزدیک ہو۔ بازار بھی دور نہ ہو۔ غرض بیچ میں
کلب
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں ہر شام کلب جایا کرتا تھا۔ شام کو بلیرڈ روم کا افتتاح ہو رہا ہے۔ چند شوقین انگریز ممبروں نے خاص طور پر چندہ اکٹھا کیا۔۔۔ ایک نہایت قیمتی بلیرڈ کی میز منگائی گئی۔ کلب کے سب سے معزز اور پرانے ممبر رسم افتتاح ادا کر رہے ہیں۔
فلاسفر
آخر اس گرم سی شام کو میں نے گھر میں کہہ دیا کہ مجھ سے ایسی تپش میں نہیں پڑھا جاتا۔ ابھی کچھ اتنی زیادہ گرمیاں بھی نہیں شروع ہوئی تھیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ امتحان نزدیک تھا اور تیاری اچھی طرح نہیں ہوئی تھی۔ یہ ایک قسم کا بہانہ تھا۔ گھر بھر میں صرف مجھے
کلید کامیابی
ہم لوگ خوش قسمت ہیں کیونکہ ایک حیرت انگیز دور سے گزر رہے ہیں۔ آج تک انسان کو ترقی کرنے کے اتنے موقعے کبھی میسر نہیں ہوئے، پرانے زمانے میں ہرایک کو ہرہنرخود سیکھنا پڑتا تھا، لیکن آج کل ہر شخص دوسروں کی مدد پر خواہ مخواہ تلا ہوا ہے اوربلاوجہ دوسروں
مشورے
(ریڈیو کا ایک فیچر) اناؤنسر، خواتین و حضرات! اس مہینے ہمیں طرح طرح کے مشورے موصول ہوئے۔ پہلے تو ہم ہچکچائے، لیکن چونکہ جدت کو ہر جگہ پسند کیا جاتا ہے اس لیے انہیں پیش کرتے وقت ہمیں ذرا بھی تامل نہیں ہے۔ خود ہی سوچیے جہاں ایک کرکٹ کا میچ نشر ہو
شیطان
اس رات اتفاق سے میں نے شیطان کو خواب میں دیکھ لیا۔ خواہ مخواہ خواب نظر آگیا۔ رات کو اچھا بھلا سویا تھا، نہ شیطان کے متعلق کچھ سوچا نہ کوئی ذکر ہوا۔ نہ جانے کیوں ساری رات شیطان سے باتیں ہوتی رہیں اور شیطان نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا کہ خاکسار کو شیطان
تعویذ
چار بجے شیطان چائے پینے آئے۔ جب ہم پی کر باہر نکلے تو دفعتاً انہیں محسوس ہوا کہ چائے ٹھنڈی تھی، چنانچہ ہم ان کے ہوسٹل گئے۔ وہاں کھولتی ہوئی چائے پی گئی، لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے۔ منہ بنا کر بولے کہ یہ چائے بھی نامکمل رہی، کیونکہ اس کے ساتھ لوازمات نہیں
دو تارے
میں نے دونوں بازو اوپر اٹھائے، پنجوں پر اچھلا اور سر کے بل چھلانگ لگا دی۔ خنک ہوا کے جھونکوں میں سے گزرتا ہوا دھم سے ٹھنڈے پانی میں کودا۔ میری انگلیاں ندی کی تہ سے جا لگیں۔ پھر اچھلا اور پانی کی سطح پر آگیا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ گلدستے کا کوئی پتہ نہ تھا۔
بلڈ پریشر
’’میرا بلڈپ ریشر۔۔۔‘‘ شیطان نے پھر شروع کیا۔ ’’درست ہے۔‘‘ مقصود گھوڑے نے پھر ان کی بات کاٹ دی۔ ’’ہوا یہ کہ آج صبح جو میں اٹھ کر دیکھتا ہوں تو کائنات میرے لیے سنوری ہوئی تھی۔ سورج میرے لیے ضرورت سے زیادہ چمک رہا تھا اور اپنی چمکیلی اور سنہری شعاعیں
سماج
بچپن میں بھوتوں پریتوں کی فرضی کہانیاں سننے کے بعد جب سچ مچ کی کہانیاں پڑھیں تو ان میں عموماً ایک مشکل سا لفظ آیا کرتا۔ سب کچھ سمجھ میں آجاتا، لیکن وہ لفظ سمجھ میں نہ آتا۔ وہ دن اور آج کا دن، اس لفظ کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ وہ لفظ ہے، ’’سماج۔‘‘ یوں تو یہ
ساڑھے چھ
ٹن سے گھنٹی بجی اور میں تھک کر اپنے کارنر میں سٹول پر آ گرا۔ یار لوگوں نے مالش شروع کی۔ بولے گھبرانے کی کوئی بات نہیں، ابھی دو راؤنڈ اور ہیں۔ ہمت سے کام لو۔ ایک آدھ ہک جما دینا اور جیت یقینی ہے۔ پہلے راؤنڈ میں یہی ہوا کرتا ہے۔ اورمیں دل ہی دل میں اس