Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

شہنواز فاروقی

شہنواز فاروقی کے اشعار

1.7K
Favorite

باعتبار

جدائی سے زیادہ جان لیوا

محبت میں محبت کی کمی ہے

وہ مرے بس کو کیسے سمجھے گا

جو مری بے بسی کو سمجھا نہیں

یہ جہاں ایک تماشا ہے سبھی کہتے ہیں

تم نہ ہوتے تو اسے ہم بھی تماشا کہتے

کبھی یہ غم تھا کہ سمجھا نہیں کوئی ہم کو

اور اب یہ ڈر کہ کسی نے سمجھ لیا ہی نہ ہو

اتنے ڈوبے ہوئے تھے جینے میں

مدتوں زندگی کو سمجھا نہیں

پھول کو چوم کے گلزار بنا سکتی ہے

ایسی اک بات ہے ہونٹوں کی پذیرائی میں

ایسے بھٹک رہا ہے خرابے میں آدمی

جیسے اسے کبھی بھی ہدایت نہیں ملی

آغاز ہی نہیں تھا سو انجام بھی نہیں

وہ گمشدہ ہوں جس کا کوئی نام بھی نہیں

ایسا چہرہ کہ آنکھ بول اٹھی

معجزہ آئنے کے بعد کا ہے

کتاب عشق میں سائے کا مطلب

در و دیوار کا سایہ نہیں ہے

ہے مسئلے کا حل یہ اسی در پہ جاؤں میں

جس در پہ اب میں جانے کے قابل نہیں رہا

حسن ایسا تھا کہ ہر اک آئنا کم پڑ گیا

آئنہ کیا عمر بھر کا دیکھنا کم پڑ گیا

اس کو سجدہ نہ کہو

یہ تو عادت ہے میاں

اک فکر لگی رہتی ہے دنیا کی ہمیشہ

ہر چند اسے ہم نے بنایا بھی نہیں ہے

دل والوں سے سنتے تھے کبھی قصۂ دنیا

اب دل کی کہانی بھی سناتے ہیں اداکار

پھر آدمی ہوس سے بھی آگے نکل گیا

پھر آدمی کے کام نہ آیا گناہ تک

کھلتا ہے ہر اک شخص کے قامت کے برابر

یہ دل ہے کوئی کاٹھ کا دروازہ نہیں ہے

عجب ہی آگ ہے دل کی کہ اس میں

وہی جلتا ہے جو جلتا نہیں ہے

چھوٹی سی ایک بات مری پھیلتی گئی

یعنی مرے خیال میں برکت زیادہ ہے

دل تباہ میں آباد ہے زمانے سے

اک ایسی بات جو کھلتی ہے مسکرانے سے

وہ درد اٹھا دل میں کہ جس درد کا درماں

گر ہو نہ پس لفظ تو ملتا ہے سر دار

کسی نگاہ میں اتنا ٹھہر کے آئی ہے

یہ کائنات بہت بن سنور کے آئی ہے

بہت ڈرتا تھا رونے سے

سو بن کر متقی رویا

درد تھا ہیجان تھا پر آنکھ میں آنسو نہ تھے

جیسے دل تک آتے آتے حادثہ کم پڑ گیا

بکھرنے سے بہت پہلے جسے کچھ بھی نہیں کہتے

بکھرنے سے ذرا پہلے اسے شیرازہ کہتے ہیں

کسی لاشے پہ یہ باد صبا کہتی ہوئی گزری

شہید عشق ہے اس کے لہو کو تازہ کہتے ہیں

خواہش سے کب ہے تیری طلب آرزو سے ہے

اک سمت سے نہیں یہ غضب چار سو سے ہے

میں تو لائق نہیں تھا شر کے بھی

رکھ دیے اس نے خیر و شر مجھ میں

آنکھ سے کیا میں تو اپنے دل سے باہر ہو گیا

رقص ہی ایسا تھا ہر اک دائرہ کم پڑ گیا

آئین عشق یوں بھی بدلنا تھا ایک دن

جو بات وصل سے تھی وہ اب گفتگو سے ہے

ہمارے دور میں دل بھی ہے چھوٹا

بڑا ہے کچھ تو بس عبرت بڑی ہے

گیا ہے جب کبھی دل پر گیا ہے

یہ میرا ہاتھ مشکل پر گیا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے