شہنواز فاروقی کے اشعار
وہ مرے بس کو کیسے سمجھے گا
جو مری بے بسی کو سمجھا نہیں
یہ جہاں ایک تماشا ہے سبھی کہتے ہیں
تم نہ ہوتے تو اسے ہم بھی تماشا کہتے
کبھی یہ غم تھا کہ سمجھا نہیں کوئی ہم کو
اور اب یہ ڈر کہ کسی نے سمجھ لیا ہی نہ ہو
اتنے ڈوبے ہوئے تھے جینے میں
مدتوں زندگی کو سمجھا نہیں
پھول کو چوم کے گلزار بنا سکتی ہے
ایسی اک بات ہے ہونٹوں کی پذیرائی میں
ایسے بھٹک رہا ہے خرابے میں آدمی
جیسے اسے کبھی بھی ہدایت نہیں ملی
آغاز ہی نہیں تھا سو انجام بھی نہیں
وہ گمشدہ ہوں جس کا کوئی نام بھی نہیں
کتاب عشق میں سائے کا مطلب
در و دیوار کا سایہ نہیں ہے
ہے مسئلے کا حل یہ اسی در پہ جاؤں میں
جس در پہ اب میں جانے کے قابل نہیں رہا
حسن ایسا تھا کہ ہر اک آئنا کم پڑ گیا
آئنہ کیا عمر بھر کا دیکھنا کم پڑ گیا
اک فکر لگی رہتی ہے دنیا کی ہمیشہ
ہر چند اسے ہم نے بنایا بھی نہیں ہے
دل والوں سے سنتے تھے کبھی قصۂ دنیا
اب دل کی کہانی بھی سناتے ہیں اداکار
پھر آدمی ہوس سے بھی آگے نکل گیا
پھر آدمی کے کام نہ آیا گناہ تک
کھلتا ہے ہر اک شخص کے قامت کے برابر
یہ دل ہے کوئی کاٹھ کا دروازہ نہیں ہے
عجب ہی آگ ہے دل کی کہ اس میں
وہی جلتا ہے جو جلتا نہیں ہے
چھوٹی سی ایک بات مری پھیلتی گئی
یعنی مرے خیال میں برکت زیادہ ہے
دل تباہ میں آباد ہے زمانے سے
اک ایسی بات جو کھلتی ہے مسکرانے سے
وہ درد اٹھا دل میں کہ جس درد کا درماں
گر ہو نہ پس لفظ تو ملتا ہے سر دار
کسی نگاہ میں اتنا ٹھہر کے آئی ہے
یہ کائنات بہت بن سنور کے آئی ہے
درد تھا ہیجان تھا پر آنکھ میں آنسو نہ تھے
جیسے دل تک آتے آتے حادثہ کم پڑ گیا
بکھرنے سے بہت پہلے جسے کچھ بھی نہیں کہتے
بکھرنے سے ذرا پہلے اسے شیرازہ کہتے ہیں
کسی لاشے پہ یہ باد صبا کہتی ہوئی گزری
شہید عشق ہے اس کے لہو کو تازہ کہتے ہیں
خواہش سے کب ہے تیری طلب آرزو سے ہے
اک سمت سے نہیں یہ غضب چار سو سے ہے
میں تو لائق نہیں تھا شر کے بھی
رکھ دیے اس نے خیر و شر مجھ میں
آنکھ سے کیا میں تو اپنے دل سے باہر ہو گیا
رقص ہی ایسا تھا ہر اک دائرہ کم پڑ گیا
آئین عشق یوں بھی بدلنا تھا ایک دن
جو بات وصل سے تھی وہ اب گفتگو سے ہے
ہمارے دور میں دل بھی ہے چھوٹا
بڑا ہے کچھ تو بس عبرت بڑی ہے
گیا ہے جب کبھی دل پر گیا ہے
یہ میرا ہاتھ مشکل پر گیا ہے